محکمہ ترقی و منصوبہ بندی بلوچستان کے حکام کے مطابق تجویز کردہ پیکج میں شامل منصوبوں کی تعداد 184 ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
وفاقی حکومت نے بلوچستان کے جنوبی پسماندہ اور شورش زدہ علاقوں کی ترقی کے لیے خصوصی پیکیج دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابتدائی طور پر ’جنوبی بلوچستان‘ پیکیج کا تخمینہ تقریباً 200 ارب روپے لگایا گیا ہے، پیکج کے تحت 10 سے زائد شعبوں میں درجنوں بڑے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ تاہم بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے پیکیج کے نام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان منصوبوں کی آڑ میں صوبے کو انتظامی اور جغرافیائی طور پر تقسیم کرنے کے لیے راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان کے وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے اردو نیوز کو بتایا کہ صوبے کے جنوبی علاقوں کو ترقیاتی پیکیج دینے کا فیصلہ قومی ترقیاتی کونسل (این ڈی سی) نے کیا ہے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں 13 رکنی کونسل جون 2019ء میں قائم کی گئی تھی اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اس کے رکن ہیں۔
ظہور بلیدی کے مطابق ’قومی ترقیاتی کونسل نے محسوس کیا کہ بلوچستان کے جنوبی اضلاع گوادر، کیچ (تربت)، پنجگور، آواران اور لسبیلہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں، یہ ملک کے پسماندہ ترین علاقوں میں شامل ہیں، یہاں مواصلاتی رابطوں اور سماجی اقتصادی ترقی کی سخت ضرورت ہے اس لیے ان اضلاع کو ملک کے باقی ترقی یافتہ اضلاع کے برابر لانے کے لیے بڑا پیکیج دینے کا فیصلہ کیا گیا۔‘
ایران کی سرحد سے ملحقہ کیچ، پنجگور اور کالعدم تنظیم بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر کا آبائی ضلع آواران بلوچستان کے صرف پسماندہ ہی نہیں بلکہ سب سے زیادہ شورش زدہ علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں جو گذشتہ ایک دہائی سے بدامنی کا شکار ہیں۔ آواران کو صوبے اور ملک کے باقی حصوں سے ملانے والی کوئی سڑک پختہ نہیں۔ لسبیلہ اورگوادر کے ساحلی اضلاع بھی غیر ترقی یافتہ اضلاع مانے جاتے ہیں۔
محکمہ ترقی و منصوبہ بندی بلوچستان کے حکام کے مطابق تجویز کردہ پیکج میں شامل منصوبوں کی تعداد 184 ہے جن میں مواصلات، زراعت، آبپاشی، آبنوشی، صنعت، ماہی گیری، توانائی، لائیو سٹاک، سرحدی تجارت سمیت 10 سے زائد شعبوں کے منصوبے شامل ہیں۔ ان کا ابتدائی تخمینہ دو لاکھ سات ہزار 286 ملین یعنی تقریباً دو سو ارب روپے لگایا گیا ہے۔
محکمہ ترقی و منصوبہ بندی کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ پیکیج میں آواران کو کراچی، خضدار اورکیچ سے ملانے کے لیے شاہراہوں کی تعمیر، ایران سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں سرحدی تجارت کو آسان بنانے کے لیے سڑکوں کی تعمیر، مکران ڈویژن کو نیشنل گرڈ سٹیشن سے بجلی کی فراہمی، ریلوے ٹریکس کی تعمیرکے منصوبوں کے علاوہ ایل پی جی، ایل این جی ٹرمینلز کے قیام اورکیڈٹ کالجز جیسے بڑے منصوبے بھی شامل ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ماہی گیری، زراعت اور لائیو سٹاک جیسے پیداواری شعبوں پر خاص توجہ دی جائے گی۔ مکران میں کپاس کی کاشت کو فروغ دے کر کاٹن جیننگ ملز بنائی جائیں گی۔ کسانوں اور مالداروں کو تکنیکی معاونت دینے کے علاوہ کولڈ سٹوریجز اور مکران میں پیدا ہونے والی کھجور بیرون ملک برآمد کرنے کے لیے پروسسنگ پلانٹ قائم کیے جائیں گے۔ یہ منصوبے تین سے چار سال کی مدت میں مکمل کیے جائیں گے۔ قلیل المدتی، وسط المدتی اور طویل المدتی منصوں پر مرحلہ وار متعلقہ وفاقی و صوبائی محکموں کے ذریعے عملدرآمد کیا جائے گا۔
صوبائی وزیرخزانہ ظہور بلیدی کے مطابق ابھی منصوبوں کی نشاندہی کا عمل جاری ہے اس کے بعد فزیبلٹی بنے گی اور پھر ان پر کام شروع کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے گذشتہ دنوں تربت کا دورہ کرکے سیاسی و قبائلی عمائدین اور سرکاری افسران سے اس پیکیج پر مشاورت بھی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان منصوبوں کی تکمیل سے جنوبی بلوچستان پر اچھے اور دورس اثرات مرتب ہوں گے، عوام کی سماجی و معاشی زندگی میں بہتری آ سکے گی اور اس سے باقی خطے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘
بلوچستان حکومت کے پالیسی ریفارمز یونٹ کے سابق سربراہ ماہر معاشیات قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ بلوچستان کے لیے پہلے بھی ترقیاتی پیکیجز کے اعلان ہوتے رہے ہیں مگر جب عملدرآمد کی بات آتی ہے تو اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پیکیج کے لیے اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے کیونکہ وفاق کے پاس تو فنڈز ہی نہیں اور بلوچستان کا اپنا کل ترقیاتی بجٹ بھی سوا سو ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ اگر یہ رقم کہیں اور سے نکال کر دی جائے گی تو کہاں سے اور کس شعبے میں کٹوتی کرکے بجٹ دیں گے۔
بلوچستان کے وزیر خزانہ ظہور بلیدی کا کہنا ہے کہ نیشنل پبلک فنانس مینیجمنٹ ایکٹ کے تحت جس صوبے میں ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں گے ان میں کلیدی کردار متعلقہ صوبے کا ہی ہوگا مگر اتنے بڑے پیکیج کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے بلوچستان حکومت کے پاس فنڈز نہیں اس لیے وفاق ہماری معاونت کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر پانچ اضلاع کو پیکیج میں شامل کیا گیا ہے، فنڈز دستیاب ہوئے تو مزید اضلاع کو اس پیکیج سے حصہ ملے گا۔
’جنوبی بلوچستان‘ کے نام پر اعتراض
بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی نے ترقیاتی پیکیج کے لیے ’جنوبی بلوچستان‘ کے نام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے منصوبوں کی آڑ میں بلوچستان کو تقسیم کرنے کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو تقسیم کرنے کی پہلے بھی سازش کی جاتی رہی ہے اور اب پھر دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وفاق کی کوشش ہے کہ گوادر سمیت ساحلی علاقوں کے ایسے یونٹ بنائے جائیں جس پر وفاق کا کنٹرول ہوں۔ اگر نئے صوبے بنانے ہیں تو وہ لسانی، قومی اور تاریخی بنیادوں پر بنائے جائیں۔ ہمارا واضح اور دیرنہ موقف رہا ہے کہ بلوچستان کے پشتون علاقوں کو خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے یا پھر الگ صوبہ بنایا جائے مگر ہم بلوچستان کے بلوچ علاقوں کی تقسیم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
نیشنل پارٹی نے بھی کوئٹہ میں اپنے دو روزہ مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ کراچی اور بلوچستان کے ساحل کو ملا کر ایک وفاقی یونٹ بنانے کی سازش کا ماسٹر پلان تشکیل دیا گیا ہے۔ بلوچستان اور سندھ کو تقسیم کرنے کی سازشوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آواران، کیچ اور دوسرے پسماندہ اضلاع کے لیے ترقیاتی پیکیج خوش آئند ہے تاہم اس پیکیج کو جنوبی بلوچستان کا نام نہیں دینا چاہیے۔ صوبے میں مکران اور جھالاوان جیسے تاریخی ناموں کو چھوڑ کر جنوبی بلوچستان کے نام کے استعمال سے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طاقتور حلقوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ بلوچستان کو تقسیم کیا جائے اور اب بھی وہ اسی کوشش میں ہے۔ یہ صوبے نہیں قومی وحدتیں ہیں اور ہم ان کی سازش کے تحت تقسیم نہیں مانیں گے۔
تاہم صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے بلوچستان کی تقسیم اور جنوبی بلوچستان کے نام سے نئے صوبے کی تشکیل سے متعلق اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس پیکیج کا مقصد بلوچستان کو تقسیم کرنا نہیں۔ نئے صوبے بنانے کی باتیں درست نہیں۔ پیکیج میں صرف مکران ڈویژن کے ساتھ ساتھ قلات ڈویژن کے اضلاع بھی شامل ہیں اس لیے اسے مکران کی بجائے جنوبی بلوچستان پیکیج کا نام دیا گیا ہے۔