Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستانیوں کے مسائل حل کریں گے‘

وزیر اعظم کے حال ہی میں نامزد ہونے والے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی  مولانا طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ ان کا ہدف اپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمان نہیں بلکہ ان کی تقرری کا مقصد فرقہ واریت کا خاتمہ اور خلیجی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کے مسائل کا حل ہے۔
اسلام آباد میں اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ وہ چھ ماہ کا ایک منصوبہ لے کر آئے ہیں جس کے تحت عرب اور خلیجی ممالک  میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے مسائل حل کیے جائیں گے جبکہ ملک بھر میں ہر سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کونسلز بھی قائم کی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی ان کی دیگر ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی نوٹیفیکیشن جاری ہو جائے گا۔
مولانا طاہر اشرفی نے بتایا کہ وہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کریں گے جس کا فائدہ وہاں رہنے والے پاکستانیوں کو ہو گا۔
اپنے خلیجی ممالک میں تعلقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’میں واحد پاکستانی ہوں جسے او آئی سی کا امن ایوارڈ ملا ہے۔ میرا پہلا جو ٹارگٹ یہ ہے کہ ہمارے جو پاکستانی خلیجی ممالک میں ہیں اسلامی ممالک میں ہیں ان کی جو مشکلات ہیں وہ کیسے کم کرنی ہیں اور ان کا اور وہاں کی حکومت یا لیبر ڈیپارٹمنٹ ان کے درمیان فاصلے کیسے کم کیے جائیں۔جو وہاں ہمارے بڑے بڑے تاجر ہیں کاروباری لوگ ہیں پاکستانی جو یہاں کروڑوں ڈالر بھیج رہے ہیں ان کی مشکلات کو کیسے حل کرنا ہے۔‘

مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ ’اگر مولانا فضل الرحمن کا نواز شریف صاحب کا حلیف ہونا جرم نہیں ہے تو میرا عمران خان کا حلیف ہونا جرم کیوں ہے؟‘ (فوٹو:اے پی پی)

ان کی اچانک تعیناتی پر یہ تاثر ابھرا کہ شاید اس کا مقصد اپوزیشن اتحاد کے حال ہی مقرر ہونے والے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا سیاسی مقابلہ کرنا ہے کیونکہ دونوں کا حلقہ اثر مذہبی حلقے ہیں تاہم مولانا طاہر اشرفی اس تاثر کی تردید کرتے ہیں۔
’اگر سیاسی انداز سے (مولانا ٖفضل الرحمان) کا مقابلہ کرنا ہوتا تو ہمارے پاس پاکستان علما کونسل کا پلیٹ فارم ہے اور پنجاب میں ہم بڑے مضبوط ہیں۔ میرا ٹارگٹ نہ تو مولانا فضل الرحمان ہیں نہ میں نے ایسا سوچا ہے۔ وہ سیاسی مذہبی لیڈر ہیں ان کا ایک اپنا نکتہ نظر ہے تو اگر مولانا فضل الرحمن کا نواز شریف صاحب کا حلیف ہونا جرم نہیں ہے تو میرا عمران خان کا حلیف ہونا جرم کیوں ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کو بہتر انداز میں گراس روٹ لیول پر سے آرگنائز کیا جائے۔ ’جو مجھے ذمہ داری دی گئی اس میں بین المذاہب ہم آہنگی ہے، اسلامی اور عرب ممالک، خلیجی ممالک وہاں پاکستانیوں اور ان سے تعلقات میں بہتری ہے تو انشااللہ یہ ہوگی اور آپ دیکھیں گے، چھ ماہ کا ایک میرے سامنے پلان ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اسی طرح انٹرفیتھ ہارمونی ہے ہم یونین کونسل سے لے کر مرکز تک انٹرفیتھ ہارمونی کونسلز بنائیں گے۔‘

مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سیاسی مذہبی لیڈر ہیں ان کا ایک اپنا نکتہ نظر ہے (فوٹو:اے ایف پی)

اس سوال پر کہ وہ ماضی میں عمران خان کی مخالفت اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے حق  میں بیان دے چکے ہیں مولانا اشرفی کا کہنا تھا کہ ’آج بھی میں کہتا ہوں جب مولانا فضل الرحمان صاحب یہاں دھرنا لے کر آئے تو میں نے اس وقت بھی کہا اور جب خان صاحب نے دھرنا کیا تھا میں نے اس وقت بھی کہا کہ مسائل میز پر بیٹھ کر حل ہوتے ہیں۔ مسائل  توڑ پھوڑ سے یا بلوے سے حل نہیں ہوتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے نواز شریف سے پوری زندگی میں سبز چائے کا کپ تو پیا ہو گا لیکن نہ کبھی کوئی عہدہ قبول کیا نہ کوئی رعایت مانگی۔‘
نواز شریف کی اے پی سی میں ہونے والی سخت تقریر پر ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ سامنے تو رکھیں عمران خان کو اور نشانہ آپ کا پاکستان کے سلامتی کے ادارے اور فوج ہوں تو اس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہے۔‘
نواز شریف اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں پر لاہور میں غداری کے مقدمے کی مخالفت کرتے ہوئے مولانا طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ نہ غداری کے نعرے لگنے چاہیے نہ ہی قومی سلامتی کے اداروں اور فوج کے خلاف نعرے لگنے چاہیئں، دونوں ہی درست نہیں ہیں۔‘

 

باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: