Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترک صدر کو دو محاذوں پر مشکلات کا سامنا

روس کے وزیر خارجہ سرگے لاورو کا کہنا تھا کہ روس نے کبھی ترکی کو اپنا سٹریٹیجک اتحادی نہیں سمجھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
ترک صدر رجب طیب اردوگان کو بدھ کے روز دو محاذوں پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑا جب یورپی اور روسی سفارتکاروں نے مشرقی بحیرہ روم اور قفقاز میں ترک صدر کی مہم جوئی پر لگام ڈالنے کے اقدامات کیے۔
عرب نیوز نے روئٹرز کے حوالے سے بتایا کہ یورپی یونین کے افسران نے تسلیم کیا کہ ترکی کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کی حکمت عملی شروع ہونے کے صرف دو ہفتوں بعد ہی بکھر رہی ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز پر دو اکتوبر کو یورپی یونین سمٹ ڈیل ہوئی تھی، جس کا مقصد ترکی کو یونان اور قبرص کے پانیوں میں قدرتی گیس کی تلاش سے روکنا تھا۔ اس ڈیل کے باوجود ترکی نے مسلح اہلکاروں کے ساتھ معائنے کے لیے ایک کشتی یونان اور قبرص کے پانیوں میں بھیجی تھی۔
تین یورپی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ اس سے یہ تاثر ملے گا کہ ترکی برسلز کے ساتھ کھیل رہا ہے۔
سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے سربراہان گیس کے تنازع کا حل ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں، اس کے بجائے انہوں ںے ایک ایسا راستہ تلاش کیا ہے جس میں فوائد کی پیش کش تو ہے لیکن ساتھ ہی پابندیوں کی دھمکیاں بھی ہیں۔
ایک سفارتکار کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے سربراہان نے اس مسئلے کو یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ وہ اس سے دسمبر میں نمٹیں گے 'اب یہ (مسئلہ) انتقام کے ساتھ واپس آ رہا ہے۔'
یورپی یونین کے سربراہان کی جمعرات اور جمعے کو ہونے والی ملاقات میں یونان اور قبرص ایک بار پھر گیس کا مسئلہ اٹھائیں گے، اور یہ بات سامنے رکھیں گے کہ حالیہ کشیدگی کے بعد اب فوری کارروائی کی ضرورت ہے جس میں پابندیوں کا عائد کرنا شامل ہو سکتا ہے۔

اکتوبر کے آغاز میں یورپی یونین سمٹ ڈیل ہوئی تھی، جس کا مقصد ترکی کو یونان اور قبرص کے پانیوں میں قدرتی گیس کی تلاش سے روکنا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ترک بحری جہاز یونان کے پانیوں میں بھیجنے کے فیصلے پر جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس نے احتجاج کے طور پر ترکی کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔
دوسری جانب روس نے کاراباخ تنازعے میں ترکی کے کردار کے پیش نظر بدھ کو ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کم کر دیے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگے لاورو کا کہنا تھا کہ روس نے کبھی ترکی کو اپنا سٹریٹیجک اتحادی نہیں سمجھا، صرف ساتھی سمجھا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکی کو اس تنازعے میں اپنے کردار کے بارے میں شفاف رہنا ہوگا۔

شیئر: