سنہ 2020 کا سال کورونا ہی کے نام ہے۔ جب سال کے شروع میں یہ وبا پھیلی اور مارچ کے وسط میں پاکستان میں لاک ڈاؤن ہوا تو بہت سی خوش فہمیاں بھی تھیں۔ مثلاً یہ کہ چند ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کی بات ہے پھر یا تو اس کا اثر کم ہو جائے گا یا پھر ویکسین آجائے گی۔
ویکسین پر کافی پیش رفت کے باوجود اس کا ٹرائل کئی مرتبہ روک کر پھر شروع کیا گیا ہے۔ اگلے سال کے وسط میں بھی اگر یہ عام دستیاب ہو جائے تو اس کو انسانیت اپنی کامیابی سمجھے گی۔
مزید پڑھیں
-
ماریہ میمن کا کالم: کیا میڈیا ہی وِلن ہے؟Node ID: 459486
-
ماریہ میمن کا کالم: ہنگامی موڈ آن ہوگیا ہےNode ID: 465071
-
کریں تو کریں کیا؟ ماریہ میمن کا کالمNode ID: 468111
جیسا کہ سائنس دانوں نے خبردار کر رکھ تھا ہو بہو ویسے ہی اب پوری دنیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کا دور دورہ ہے۔ برطانیہ میں ایک ماہ کا لاک ڈاؤن شروع کرنے کا اعلان ہو چکا ہے ۔ اسی طرح فرانس، جرمنی اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی کیسز بڑھ رہے ہیں۔
کئی ملک جن میں امریکہ اور انڈیا شامل ہیں وہاں تو ابھی پہلی لہر کا ہی اثر جاری ہے۔ اگست اور ستمبر میں جو کاروباری سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوئی تھیں ان میں پھر تعطل آ گیا ہے۔
پاکستان میں بروقت اقدامات، احتیاط اور قدرت کی مدد سے پہلی لہر کی اٹھان اتنی بھرپور نہیں تھی جس قدر اندازے لگائے گئے تھے۔ اس کا کریڈٹ حکومت اور عوام دونوں کو ہی جاتا ہے۔
وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں نے بھی کافی ایکٹیو ہو کر کام کیا۔ دوسری لہر میں البتہ سکون اور بے پروائی نمایاں ہے۔ اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان کی طرف سے کچھ اعلانات اور وارننگز کے علاوہ کوئی قابل قدر قدم نہیں اٹھایا گیا۔

سوشل ڈسٹنسنگ کی اپیلیں کی جا رہی ہیں لیکن ذمہ دار حکومتی شخصیات خود اس پر کتنا عمل کر رہی ہیں، اس کے لیے آپ کو صرف اپنی ٹی وی سکرینز پر کسی بھی نیوز چینل کی تین منٹ کی ہیڈ لائنز سے ہو جائے گا۔ وزیراعظم بذات خود جلسوں کنونشنز اور اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں۔
پی ڈی ایم اور ن لیگ کا تو جلسوں کا ایک طویل پروگرام ہے اس کے ساتھ گلگت بلتستان میں بھی بھر پور سیایسی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اپوزیشن پر بھی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ اس وقت کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے اپنے پروگراموں کو محدود کرے۔
شروع کے جلسوں کے نتیجے میں اثرات محدود ہو سکتے ہیں مگر جیسے جیسے کیس بڑھیں گے تو مزید جلسے کیسز کو کئی گنا بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت کرونا پابندیوں کو اپوزیشن کے جلسوں پر نافذ کرنے کی تو کوشش کر رہی ہے مگر اپنے اوپر لاگو کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔
