Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کریں تو کریں کیا؟ ماریہ میمن کا کالم

غریب ملکوں کی حکومتیں کنویں اور کھائی کے درمیان معلق ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
آج پورے 15 دن ہوگئے حفظ ما تقدم کے تحت گھر میں خود کو سیلف آئسولیٹ کیے ہوئے۔ ہفتے میں تین دن اپنا پروگرام کرنے کے لیے چند گھنٹوں کے لیے دفتر جانا پیشہ ورانہ فرض ہے تاہم اس کے علاوہ سب سے ملنا ملانا بالکل بند ہے۔
سائنس اور طب کے ماہرین سے اگر بات کریں تو سب کا اس نقطے پرمکمل اتفاق ہے کہ پاکستان میں کورونا کے کیسز کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے اور ’worst is yet to come‘
یقین کیجیے یہ سن کے دل کچھ بیٹھ سا گیا کہ دو ہفتوں کے سماجی فاصلے کے بعد بھی نجانے اور کتنے ہفتے اسی طرح  لاک ڈاؤن رہے گا اور گھر میں بیٹھنا پڑے گا۔ خدا کا صد شکر کہ سر پر چھت ہے، کھانے پینے کی فکر نہیں اور  فی الحال زندگی کا سب سے بڑا چیلنج  بوریت سے بچنا ہی ہے۔
لیکن اس ملک میں نوے فیصد لوگ اتنے خوش قسمت نہیں کیونکہ وہ فکر معاش سے آزاد نہیں۔ جوں جوں یہ لاک ڈاؤن طویل ہوتا جائے گا زندگی ان پر تنگ سے تنگ ہوتی جائے گی۔ ریاستی کنفیوژن، وسائل کی کمی اور فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے فی الحال تو ایسا ہی لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم کرنا مستقبل قریب میں حکومتوں کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔
اس وقت خصوصاً ہم جیسے غریب ملکوں کی حکومتیں کنویں اور کھائی کے درمیان معلق ہیں۔ ایک طرف لاک ڈاؤن سے بیروزگاری اور غربت بڑھے گی تو دوسری طرف کورونا سے اموات کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
کریں تو کریں کیا؟ یقینا یہ وقت  لیڈرشپ کے امتحان اور ریاستی مشینری کی آزمائش کا ہے۔ دو سال کی کٹھنائی کے بعد اس سال معیشت میں بہتری کی امیدوں پر کرونا کی اوس پڑ گئی ہے۔
26 فروری کو پاکستانی حکومت نے کورونا کے پہلے دو کیسز کی تصدیق کی اور آج 30 مارچ ہوچلی ہے۔ کئی ملکوں کے مقابلے میں کورونا سٹریٹجی بنانے کے لیے ہمیں چار ہفتوں کی اضافی مہلت ملی تھی۔ ریاست نے بھرپور تاثر دیا کہ گویا اس دوران کلیدی فیصلے کر لیے گئے ہیں۔

وفاقی حکومت کی طرف سے فیصلہ سازی میں کنفیوژن عیاں رہی. فوٹو: اے ایف پی

حقیقت یہ ہے کہ  ایک ماہ میں  سوا ہزار کیسز سامنے آنے کے بعد بھی ہم آج تک بطور ریاست  گو مگو کی کیفیت میں ہیں، یہی فیصلہ نہیں کر سکے کہ یہ لاک ڈاؤن ہے یا نہیں، کیا لاک ڈاؤن میں کرفیو ہوتا ہے،  جہاں لاک ڈاؤن ہے تو وہ جزوی ہے یا بتدریج بڑھتا ہوا۔ مساجد میں جمعے کی نماز میں اجتماع پر پابندی لگنی چاہیے یا نہیں۔ ان چار ہفتوں کے علاوہ یہ ایک ماہ ہم  نے اسی بحث میں صرف کیے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے فیصلہ سازی میں کنفیوژن عیاں رہی حتی کہ  کچھ فیصلے پھر مزید انتظار کیے بغیر کہیں اور کر لیے گئے ہیں۔
تاہم خیبر پختونخوا اور سندھ کی صوبائی حکومتوں میں کافی کلیرٹی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں اور یقینا اس میں بہتری کی گنجائش ہے لیکن امید ہے کہ آج اس ترمیم کے ناقدین کو چلیے مکمل طور پر نہ صحیح لیکن تھوڑی بہت اس کی افادیت کی سمجھ بھی آگئی ہوگی۔ کیونکہ صوبے اٹھارویں ترمیم سے ملے ہوئے اختیارات اور وسائل کو بروئے کار لا رہے ہیں۔
 جہاں وفاق نے کچھ فیصلوں میں تامل سے کام لیا وہیں صوبوں نے اپنے معروضی حالات کے تحت  سخت فیصلے جلد کر لیے۔
حتی کہ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی بزدار سرکار نے بھی کچھ ہمت دکھائی اور اپنے طور پرصورتحال سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔

خان صاحب کی ’کورونا ٹائیگرز‘ کی تجویز کاغذ پر تو صحیح لگتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس کے باوجود یہ چیلنج صوبائی حکومتی مشینری کے لیے بھی توقع سے بڑھ کر ہے۔ یہاں پر ضرورت تھی موثر اور مضبوط مقامی حکومتوں کی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جمہور جمہور کی مالا جپنے والے  اپنے اپنے صوبوں میں وقت پر بلدیاتی انتخابات کراتے اور جہاں مقامی حکومتیں ہیں وہاں مکمل اختیار منتقل کر چکے ہوتے۔
 ویسے تو مقامی حکومتوں کو بے اختیار رکھنے میں خیر سے تمام بڑی جماعتوں کا ٹریک ریکارڈ ایک سا ہی ہے۔
سندھ میں انتخابات تو ہوئے لیکن میئر کراچی کے اختیارات کی سلبی ایک علیحدہ داستان ہے۔ حقیقی بااختیار بلدیاتی نظام ہوتا تو نچلی سطح پر کنڑول اور ریاستی فیصلوں پر عمل درآمد کرانا نسبتا سہل ہوتا۔ خان صاحب کی ’کورونا ٹائیگرز‘ کی تجویز کاغذ پر تو صحیح لگتی ہے ۔ یہ ٹائیگرز جب سوشل میڈیا سے عملی دنیا میں آئیں گے تو حکومتی مشینری کے ہی محتاج ہوں گے ۔ اس سے کئی گنا کارآمد طریقہ بلدیاتی انفرا سٹرکچر کو استعمال کرنا ہوتا۔
خزانہ خالی ہو، آئی ایم ایف نے شکنجہ کسا ہو تو ایسے وقت میں کورونا گردی کے بعد جو معاشی بدحالی کا ایک ریلا آئے گا اس  کا مقابلہ کرنے کے لیے بے تحاشا فنڈز چاہیے ہوں گے۔

ایسے وقت میں بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف اٹھتی نظریں مایوس ہی ہوں گی. فوٹو: اے ایف پی

تارکین وطن پرخان صاحب کا ہمیشہ ہی کچھ زیادہ تکیہ رہا ہے، ڈیڑھ سال قبل بھی خان صاحب نےتارکین وطن سےجس قسم کی مال معاونت کی امید لگائی تھی وہ بر نہیں آسکی۔
ایسے وقت میں جب کورونا سے پوری دنیا متاثر ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف اٹھتی نظریں مایوس ہی ہوں گی۔ جن ملکوں میں اس وقت کرونا کی وبا سب سے زیادہ ہے وہ وہی ملک ہیں جہاں زیادہ تعداد میں خوشحال پاکستانی بستے ہیں۔ مشکل وقت میں ان کی پہلی ترجیح خود کو مالی طور پر مستحکم کرنے کی ہو گی نہ کہ وزیراعظم کی اپیل پہ لبیک کہنے میں۔
کورونا کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا تعین تو وقت کرے گا، لیکن اس دوران یہ بات تو واضح ہے کہ بحران سے نمٹنے کے لیے چار چیزیں ضروری ہیں؛ لیڈرشپ جو فوری فیصلے اور سمت کا تعین کرے ،ادارے جو ڈیلیور کریں، افرادی قوت جو احکامات کا نفاذ کرے اور عوامی شعور جو ریاست سے مکمل طور پر تعاون کرے۔
جن قوموں کو یہ چاروں چیزیں میسر ہیں وہ کورونا پر کم سے کم نقصان کے ساتھ جلد قابو پا رہی ہیں۔ جہاں پر ہماری طرح کا فقدان ہو وہاں پر کنفیوژن اور تاخیر کا ہی راج ہوتا ہے۔

شیئر: