ایاز صادق کے متنازع بیان کی مخالفت میں لاہور میں بینرز لگائے گئے۔ فوٹو ٹوئٹر
لاہور کی اہم سڑکوں پر ایاز صادق کے خلاف غداری کے بینر لگ گئے۔ ایسا پنجاب میں پہلی بار ہوا ہے۔ اس سے پہلے دیگر تمام صوبے ان فتووں سے فیض یاب ہوتے رہے اب یہ رسم پنجاب میں بھی پہنچ گئی ہے۔
پنجاب، جہاں آواز اٹھانے کا رواج نہیں تھا۔ پنجاب، جہاں سرنگوں رہنے کی روایت تھی، وہاں سے بھی اب صدائیں اٹھ رہی ہیں۔ یہاں پر بھی اب لہجوں میں تندی آگئی ہے۔
ایاز صادق کے خلاف لگے مال روڈ پر بینر اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں بھی سرکشوں سے نمٹنے کا وہی پرانا طریقہ اختیار ہوگا جس کے تحت خیبرپختونخوا میں باچا خان اور ولی خان غدار کہلائے۔ جس کے نتیجے میں سندھ میں بھٹو پر غداری کے فتوے لگے اور بے نظیر کو اینٹی سٹیٹ قرار دیا گیا۔ لہجہ بدلا ہے نہ الزام تبدیل ہوا ہے، رسم بدلی ہے نہ رواج بدلا ہے بس علاقہ تبدیل ہوا ہے۔
مولانا فضل الرحمان ایاز صادق کے ساتھ کوئی مذاکرات کرنے نہیں گئے تھے وہ ان کی جان بچانے گئے تھے۔ اس لیے کہ مولانا جانتے ہیں کہ اس ملک میں ایک دفعہ کوئی غداری کے فتوے تلے آ جائے پھر اس کے خلاف سب جائز ہوتا ہے۔ اس لیے اس پر وہ فتویٰ لگ گیا ہے جس کا مؤثر استعمال اپنے ہاں ہمیشہ سے ہو رہا ہے۔
غداری کے فتووں کی آج کل اتنی فروانی ہے کہ اب ایاز صادق تک ہی یہ بات موقوف نہیں رہی۔ اب نواز شریف بھی غدار، مریم نواز بھی غدار، رانا ثناء اللہ بھی غدار، شاہد خاقان عباسی بھی غدار۔
سچ لکھنے والا ہر صحافی غدار۔ حق کا ساتھ دینے والا ہر منصف غدار۔ سوشل میڈیا پر جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنے والا ہر ایکٹویسٹ غدار۔ ہر لکھنے والا غدار۔ ہر سوچنے والا غدار۔
بات اس سے بھی آگے نکل گئی ہے، اب تو آٹا بھی غدار ہے، چینی بھی غدار ہے، پٹرول بھی غدار ہے، ڈالر بھی غدار ہے۔ حتیٰ کے ٹماٹر کا نرخ تک غدار ہیں۔
غداروں کی اس بہتات نے یہ سبق سکھایا کہ یہ قوم دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک وہ جو غداری کے فتوے لگاتے ہیں اور دوسرے جو اس الزام کو سہتے ہیں۔ فتوے لگانے والے کم ہیں مگر طاقتور ہیں۔ فتوے سہنے والے اکثریت میں ہیں مگر بے بس ہیں۔
فتوے لگانے والوں کو طاقت کا زعم ہے اور فتوے سہنے والوں کو اکثریت کی قوت کا علم نہیں۔ فتوے سہنے والے یہ بات اگر سمجھ جائیں کہ فتوے لگانے والوں کے پاس بہت کم آپشنز ہیں، یہ رات کے اندھیرے میں بینر لگا سکتے ہیں، ٹاک شوز میں اپنی پسند کا بھاشن دے سکتے ہیں۔
حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ نادان دوست زیادہ غلطیاں کر رہے ہیں۔ زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے لاہور میں جو کچھ ایاز صادق کے بینر پر عوام کا ردعمل ہوا، جو وزیر داخلہ کی دھمکیوں نے کیا اور جو کارنامہ وزیر سائنس و ٹکینالوجی نے ایک بیان سے کیا۔ اب کسی اور کو الزام دینے کی ضرورت نہیں۔
اب گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ گھبراہٹ میں ہو رہا ہے، خوف کے عالم میں یہ سنگین غلطیاں ہو رہی ہیں۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہیں گی یہ تین واقعات تاریخ کا حصہ بنیں گے۔
ان غلطیوں سے اگر تو سبق سیکھا جاتا تو بات بھی تھی مگر ارادے تو اس سے بھی بڑی غلطیوں کے ہو رہے ہیں۔ طاقت کے زعم میں خود کو فنا کرلیا مگر عبرت نہیں پکڑی۔ ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ ان بوالعجبیوں پر کیا کہا ہے حضرت جون ایلیا نے
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دو طاقتیں آمنے سامنے آ گئیں تو معاملات گفتگو کے ذریعے حل ہوئے۔ اختلاف چاہے افراد کے درمیان ہو، اداروں کے درمیان یا ملکوں کے درمیان۔ حل گفتگو سے ہی نکلتا ہے۔
اب نواز شریف نے چند تقریروں میں وہ کہہ دیا جو اس ملک کی تاریخ میں کسی نے نہیں کہا تھا۔ لیکن اس پر سوچ بچار نہیں کی گئی۔ بس ایک وزیر موصوف کی طرف سے دھمکیاں دے کر فارغ ہو گئے۔ نواز شریف نے ابھی انکشافات کی کتاب کا پہلا صفحہ پلٹا ہے اور ایک پیج پر کھڑی حکومت کے مشترکہ صفحے کی دھجیاں بکھر گئی ہیں۔ ابھی نواز شریف کے پاس بہت سے انکشافات موجود ہیں۔
اور ہاں یہاں یاد رہے کہ اب عمران خان کی حکومت کی بلی چڑھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اب پیپلز پارٹی سے خفیہ مذاکرات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اب پی ڈی ایم سے باہر مذہبی جماعتوں کے بڑے بڑے اجتماعات سے فرق نہیں پڑتا۔
اب لوگوں کو اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ نواز شریف کے ساتھ کون کھڑا ہے۔ کون چھوڑ گیا۔ اب لوگوں کے لیے صرف یہ معنی رکھتا ہے کہ نواز شریف کیا کہہ رہے ہیں۔ مریم نواز کیا کہہ رہی ہیں۔
غداری کے فتووں کی رسم بہت پرانی ہو گئی ہے۔ صحافیوں کے اغوا، مارپیٹ کے قصے بہت عام ہو گئے ہیں۔ سیاستدانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے خواب بہت پرانے ہو گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کے سپنے بوسیدہ ہو گئے۔ اب زمانہ بدل رہا ہے۔ سوچ بدل رہی ہے۔ اب اس دور میں اس وقت میں، چاروں صوبوں کی تقدیر۔ غداری کی تصویر نہیں ہو سکتی۔ نہیں ہو سکتی۔