انڈیا میں تہواروں کا موسم جاری ہے اور جہاں جشن ہوگا وہاں مٹھائیاں بھی ہوں گی، چنانچہ گذشتہ دنوں گجرات کے شہر سورت میں ایک خاص مٹھائی نظر آئی جو نو ہزار روپے کلو فروخت ہو رہی تھی۔
در اصل مقامی تہوار چاندی پدوو کے موقعے پر سورت کے ایک مٹھائی والے نے 'گھری' مٹھائی کی ایک قسم 'گولڈ گھری' مٹھائی تیار کی۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق دکاندار نے بتایا کہ عام طور پر گھری مٹھائی 660 سے 820 روپے فی کلو کے حساب سے ملتی ہے لیکن انہوں نے جو مٹھائی تیار کی ہے وہ نو ہزار روپے کلو ہے۔
Gujarat: Ahead of Chandi Padvo, a festival falling a day after Sharad Poornima, a sweet shop in Surat has launched 'Gold Ghari' -a different version of ghari, a sweet dish from Surat. Shop owner says, "It is available at Rs 9000/kg. Normal ghari is available at Rs 660-820 per kg" pic.twitter.com/7jkXVfCls2
— ANI (@ANI) October 30, 2020
اس میں سونا یعنی گولڈ ڈالا گیا ہے جو کہ قدیم آیوروید طب کے حساب سے صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔ چونکہ سونا قیمتی دھات ہے اس لیے اس کی قیمت زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی اس مٹھائی کی مانگ امید سے کم ہے جس کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ یہ انڈیا کی خستہ معاشی حالت کی غماز ہے۔
دوسری جانب انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے ناسک میں ایک شخص کو دریائے گوداوری پر بنے ایک پل پر دن بھر کھڑا دیکھا گیا۔
وہ دریا کو آلودگی سے بچانے کے لیے دن بھر کھڑے رہے۔ ان کے بارے میں اس وقت بات سامنے آئی جب محکمۂ جنگلات کی ایک افسر سویتا بودھو نے کوڑے کے ڈھیر کے ساتھ ان کی تصویر پوسٹ کی جو وائرل ہو گئی۔
I saw this man stand on this road entire day with a whistle in hand to stop people from throwing Dussehra 'holy waste' in #Plastic bags into Godavari @Nashik
Dear Mr Patil, Respect! pic.twitter.com/Q3hj5ggP5v
— Swetha Boddu, IFS (@swethaboddu) October 31, 2020
تصویر میں نظر آنے والے شخص چندر کشور پاٹل نے اخبار ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ وہ ہر سال تہوار کے موقعے پر ایسا کرتے ہیں اور جب تک صحت ان کا ساتھ دیتی ہے وہ ایسا کرتے رہیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ دسہرے کے تہوار کے کوڑے کو دریا میں پھینکنے سے منع کرنے کے لیے وہ صبح سے رات 11 بجے تک وہاں کھڑے ہوتے ہیں۔
ان کے پاس رکھے کوڑے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے کام میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے ان کے اس قدم کو سراہا ہے۔
انڈیا میں گذشتہ دنوں دو معروف ماڈلز کے خلاف 'فحش' اور 'خلاف تہذیب' تصاویر شوٹ کرنے اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لیے ایف آئی آر درج کی گئی۔
اپنے بولڈ مناظر کے لیے معروف ماڈل پونم پانڈے اور ان کے شوہر کے خلاف 'نازیبا' مناظر شوٹ کرنے کے لیے گووا میں حکومت کے واٹرورکس محکمے کی شکایت پر ایف آئی آر دج کی گئی۔
انہیں ضمانت دیتے ہوئے مجسٹریٹ نے کہا کہ 'ویڈیو بنانا یا فلم سازی کو صرف اس لیے نازیبا قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اسے عوام میں خلاف اخلاق تصور کیا جاتا ہے۔ فلمز اور ویڈیوز اظہار رائے کی آزادی ہیں اور ہمارا آئین اسے بنیادی حقوق کے زمرے میں رکھتا ہے۔'
لیکن سوشل میڈیا پر پونم پانڈے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور ملند سمن کے خلاف کوئی کارروائی نہ کیے جانے پر شدید مباحثہ نظر آیا اور زیادہ تر صارف اسے عورت اور مرد کے درمیان معاشرے میں جاری فرق سے تعبیر کرتے نظر آئے۔
Poonam Pandey provokes while Milind Soman inspires ...
— रंजना पारीक (@little_light) November 5, 2020