’ویکسین وبا کو مزید پھیلنے سے تو روک سکتی ہے لیکن یہ بیماری کا علاج نہیں کر سکتی۔‘ (فوٹو: گیٹی امیجز)
دنیا بھر میں دوا ساز کمپنیاں اور تحقیقاتی ادارے کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی دوڑ میں ہیں اور عالمی سطح پر ہزاروں افراد پر کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں جو مختلف مراحل سے گزر رہے ہیں۔
عالمی وبا نے اب تک دنیا میں پانچ کروڑ 87 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا ہے جبکہ 13 لاکھ 90 ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
دنیا بھر میں اس وقت انسانوں پر 54 ویکسینز کے ٹرائلز جاری ہیں۔ ہم پہلے جائزہ لیتے ہیں کہ ویکسین کے ٹرائلز کن مراحل سے گزرتے ہیں اور اب تک دنیا میں اس کی تیاری کس سطح پر ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ویکسین کے ٹرائلز کا آغاز رواں برس مارچ میں ہوا، اور اب تک 13 ویکسینز ٹیسٹنگ کے فائنل مراحل تک پہنچ چکی ہیں۔
روئٹرز کے مطابق یہ ویکسینز جسم میں بیماری کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر کے کورونا کی وبا کو مزید پھیلنے سے تو روک سکتی ہیں لیکن یہ بیماری کا علاج نہیں کر سکتیں۔
ویکسین ٹرائل کے مراحل
پہلا مرحلہ پری کلینکل ٹیسٹنگ کا ہے جس میں سائنسدان نئی ویکسین کا خلیوں پر تجربہ کرتے ہیں اور جانوروں پر پھر اس کا تجربہ کر کے دیکھا جاتا ہے کہ اس کا کیا ردعمل ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 87 ویکسینز پہلے مرحلے میں ہیں۔
فیز ون سیفٹی ٹرائلز
دوسرے مرحلے میں ماہرین محدود تعداد میں لوگوں کو ویکسین کی آزمائشی خوراک دے کر کے دیکھتے ہیں کہ یہ محفوظ ہے یا نہیں اور کیا اس کا نظام مدافعت پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں۔
فیزٹوٹرائلز
اس مرحلے میں یہ ویکسین سینکڑوں افراد کو ان کی عمر کے حساب سے گروپس بنا کر دی جاتی ہے۔ اس مرحلے سے ویکسین کے محفوظ ہونے اور اس کے نظام مدافعت پر موثر یا غیر موثر ہونے کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
فیزتھری ٹرائلز
اس مرحلے میں دیکھا جاتا ہے کہ ویکسین کتنی موثر ہے۔ سائنسدان ہزاروں افراد پر ویکسین کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہ ٹرائلز اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ویکسین کورونا وائرس سے بچاتی ہے یا نہیں۔
ویکسین کی منظوری
یہ ویکسین کو استعمال کرنے کے لیے آخری مرحلہ ہے جس میں کسی ملک کے ریگولیٹرز ٹرائلز کے نتائج کا جائزہ لیتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ ویکسین کو منظور کیا جائے یا نہیں۔ وبا کے دوران کسی ویکسین کو باقاعدہ منظوری سے پہلے ایمرجنسی استعمال کی اجازت مل سکتی ہے۔
کون سی ویکسین کتنی موثر اور کب مہیا ہو گی؟
فائزر اور بائیو این ٹیک
روئٹرز کے مطابق امریکی دوا ساز کمپنی فائزر اور اس کی شراکت دار کمپنی بائیو این ٹیک نے 18 نومبر کو فائنل سٹیج ٹرائلز کا ڈیٹا شیئر کیا جس کے مطابق یہ ویکسین کورونا وائرس کو روکنے میں 95 فیصد موثر ہے۔
یہ پہلی کمپنیاں ہیں جنہوں نے فیز تھری کا ڈیٹا شائع کیا ہے اور امریکہ میں اس ویکسین کا ایمرجنسی استعمال چند دنوں میں شروع ہو جائے گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی اور آیسٹرا زینیکا
پیر کو برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی ایسٹرا زینیکا کی طرف سے تیار کی گئی ویکسین 70.4 فیصد افراد کو کورونا وائرس کا شکار ہونے سے بچا سکتی ہے اور ڈیٹا میں دیکھا گیا ہے کہ اس کی کم خوراک کے استعمال سے 90 فیصد افراد کو کورونا سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
آسٹرا زینیکا نے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر دنیا بھر میں ریگولیٹرز کو منظوری کے لیے ڈیٹا مہیا کرے گی۔
موڈرنا
امریکی فارماسیوٹیکل کمپنی موڈرنا نے 16 نومبر کو عبوری ڈیٹا جاری کیا اور کہا کہ اس کی ویکسین 94.5 فیصد موثر ہے۔
موڈرنا جلد منظوری کے لیے ویکسین کا ڈیٹا مہیا کرے گی اور امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا فیصلہ دسمبر میں متوقع ہے۔
سپوتنک فائیو ویکسین
روس میں بنائی جانے والی سپوتنک فائیو ویکسین کی جانب سے 11 نومبر کو جاری کیے گئے فائنل سٹیج ڈیٹا کے مطابق یہ ویکسین 92 فیصد موثر ہے۔
روس میں یہ ویکسین 10 ہزار افراد کو دی جا چکی ہے۔
چائنیز ویکسینز
چین نے جولائی میں ویکسین کے ایمرجنسی استعمال کی اجازت دی تھی جن میں چائینہ نیشنل بائیو ٹیک گروپ، کین سینو بائیو لاجیکس اور سینو ویک بائیو ٹیک کی ویکسینز شامل ہیں۔
سینو ویک نے 18 نومبر کو کہا کہ درمیانی سٹیج کے ٹرائلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی کورونا ویک ویکسین نے تیزی سے امیون رسپانس دیا لیکن کورونا سے صحتیاب ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز پیدا کرنے میں اس کا رسپانس کم تھا۔
ویکسین کی سٹوریج
فائزر اور بائیو این ٹیک کی طرف سے متعارف کروائی ویکسین کو چھ ماہ تک سٹور کیا جا سکے گا اور اس کے لیے منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت چاہیے ہوگا، جبکہ موڈرنا کی ویکسین منفی 20 ڈگری درجہ حرات میں سٹور کی جا سکے گی جو عام طور پر فریزر کا درجہ حرارت ہوتا ہے، اور اسے بھی چھ ماہ تک سٹور کیا جا سکے گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی اور آیسٹرا زینیکا کی ویکسین کو عام فریج کے درجہ حرارت پر سٹور کیا جا سکے گا۔ اسی طرح روس کی سپوتنک فائیو ویکسین بھی فریج کے درجہ حرارت میں رکھی جا سکے گی۔ یعنی ان ویکسینز کو دنیا کی کسی بھی کونے میں پہنچانا آسان ہوگا۔
ویکسین کی قیمت
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق موسم گرما میں موڈرنا نے ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت 37 امریکی ڈالرز بتائی تھی. جانسن اینڈ جانسن نے ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت 10 ڈالرز رکھی ہے، فائزر نے 20 ڈالر جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی اور آیسٹرا زینیکا نے اس کی قیمت تقریباً چار ڈالر بتائی ہے۔
ترقی پذیر ممالک کو ویکسین کی فراہمی
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ غریب ممالک تک ویکسین کی رسائی کس طرح ممکن ہو گی۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فارماسوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے ویکسین بنانے کے بعد امیر ممالک ویکسین کی تقسیم کو محدود کر دیں گے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے جی 20 سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ویکسین سے متعلق ریاض سربراہ کانفرنس پراجیکٹ کے حامی ہیں۔ کورونا ویکسین کی فراہمی سب کے لیے ضروری ہے۔ روس غریب ملکوں کو ویکسین مہیا کرنے کے لیے تیار ہے‘۔
اس سے قبل چین نے مستقبل میں ترقی پذیر ممالک کو کورونا ویکسین کی تقسیم کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
اے ایف پی کے مطابق ویکسین کی تیاری کے لیے بنائے گئے پلیٹ فارم کوویکس نے عہد کیا ہے کہ جیسے ہی کوئی ویکسین بنائی جاتی ہے اسے غریب تر ممالک تک پہنچایا جائے گا۔
چین کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ چین ویکسین کی تیاری کے لیے بنائے گئے پلیٹ فارم کوویکس میں شامل ہو گیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ چین کی ویکسین ترقی پذیر ممالک کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائے گی۔