Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور کی’ڈولیاں‘ کہاں جا رہی ہیں؟

بزرگ عاشق علی پشاور کے کمبو مزدا بس اڈے میں ہاتھ میں قہوے کی پیالی پکڑے ٹرک آرٹ سے مزین اپنی بس کے پاس زمین پر بیٹھے ہیں اور دور کہیں سوچوں میں مگن ہیں۔
وہ 1976 سے پشاور کی سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت امن و امان تھا اور پاکستان کے کونے کونے سے اور بیرون ملک سے بھی لوگ پشاور میں کاروبار کے لیے آتے تھے۔
اس وقت لوگ سفر کے لیے ان بسوں میں جانے کو ہی ترجیح دیتے تھے کیونکہ ان بسوں کی سجاوٹ کی وجہ سے اور پشاور کے مختلف مقامات سے گزرنے کی وجہ سے پورے پشاور کی سیر بھی ہوجاتی تھی۔
اس وقت راکٹ بسیں، مزدہ بسیں، ویگنیں اور رکشے پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال ہوتے تھے۔  یہ بسیں اپنی سجاوٹ کے باعث ایک ڈولی کی طرح نظر آتی تھیں۔ ان پر ٹرک آرٹ اور دیگر سجاوٹ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کی جاتی تھی۔
عاشق علی بتاتے ہیں کہ جب یہ بسیں کمبو اڈے سے لے کر کارخانو، حیات آباد، بڈھ بیر اور کوہاٹ روڈ تک جاتی تھیں اور ان کے کنڈکٹرز مسافروں کو متوجہ کرنے کے لیے دلچسپ انداز میں سٹیشنوں کے ناموں کی آوازیں لگاتے تھے تو علاقے میں ایک رونق سی لگ جاتی تھی۔
اس وقت پشاور میں بیڈ فورڈ کی 400 بسیں مختلف روٹس پر چلتی تھیں۔ وقت گزرنے کے بعد بعض بسیں پرانی اور خراب ہونے کی وجہ سے سکریپ ہوگئیں اور جو بچ گئیں وہ آج بھی سڑکوں کو رونق بخش رہی ہیں۔

یہ بسیں مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوتی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)

قہوے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے اور اپنی یادداشت کو تازہ کرتے عاشق علی مزید کہنے لگے۔ ’پرانا پشاور بہت پیارا تھا، سڑکوں کے بیچ میں پھول اور کھلی کھلی سڑکیں ہوا کرتی تھی، زیادہ رش نہیں ہوتا تھا اور لوگوں کا پشاور آنا جانا بھی کافی زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے آئے ہوئے سیاح بھی زیادہ ہوتے تھے، پھر پشاور کو بدامنی نے آگھیرا۔
اب امن لوٹنے پر وہ دیکھتے ہیں کہ کاروباری لوگ اور سیاح پھر سے پشاور لوٹ رہے ہیں۔ 
لیکن ان کی پریشانی یہ ہے کہ ان کی ’ڈولی‘ یعنی کہ ان کی  پسندیدہ مزدا بس اب زیادہ عرصے تک پشاور کی سڑکوں پر دوڑ نہیں سکے گی۔
ٹرک آرٹ، گھونگھروؤں اور پھولوں سے سجی لگ بھگ 50 سال سے پشاور کی سڑکوں پر چلنی والی یہ مزدہ اور راکٹ بسیں اب بی آرٹی بس سروس شروع ہونے کے بعد ختم ہوجائیں گی کیونکہ صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ شہر کا ماحول بہتر بنانے اور آلودگی ختم کرنے کے لیے وہ یہ تمام پرانی بسیں اور ویگنیں خرید کر ان کو سڑکوں سے ہٹا لے گی اور کباڑ میں بیچ دے گی۔ 
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایک بس آٹھ سے 15 لاکھ روپے میں اور ویگن آٹھ سے 10 لاکھ روپے میں خریدے گی۔
صوبائی حکومت نے ان پرانی گاڑیوں سے وابستہ لوگوں کو بی آر ٹی میں ایڈجسٹ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا جس کے لیے ان کو چلانے والے تمام ڈرائیوروں کی ڈیٹا لسٹ بھی بنا لی تھی لیکن تاحال ان کا کچھ نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے تقریباً تین ہزار خاندان مشکلات کا شکار ہیں۔
عاشق علی، جن کے تین بیٹے بھی ڈرائیور ہیں، کو امید نہیں ہے کہ اب شہر میں کوئی مزدا بس نظر آئے گی۔ نہ ہی ان کو یہ امید ہے کہ اس عمر میں سرکاری یا کوئی اور مناسب نوکری ملے گی۔ لہٰذا وہ اب سوچ رہے ہیں کہ ایسی کون سی گاڑی چلائیں یا مزدوری کریں جو ان کے خیالات کو ان کی ’ڈولی‘ اور جوانی کی یادوں سے ہٹا سکے۔ 

حکومت کا کہنا ہے کہ پرانی بسیں سڑکوں سے ہٹا لے گی اور کباڑ میں بیچ دے گی (فوٹو: اردو نیوز)

مزدہ بسیں پشاور کیسے پہنچیں؟ 

مزدہ بس ایسوسی ایشن کے صدر الماس خان خلیل کے مطابق 1976 میں فورڈ ویگن پشاور لائی گئی تھی جو کم وقت میں بہت زیادہ مشہور ہو گئی کیونکہ اس میں سفر پرسکون تھا۔
1985 میں برطانوی کمپنی بیڈ فورڈ کی منی بسیں کراچی سے پشاور لائی گئیں تاکہ شہر کا ٹرانسپورٹ نظام مزید بہتر بنایا جائے۔ بعد ازاں کمپنی نے یہ بسیں بنانا بند کر دیں، لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود پشاور میں یہ بسیں آج بھی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

حکومت نے اب تک کتنی بسیں خریدیں؟

13 نومبر 2017 کو خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے بی آر ٹی پراجیکٹ شروع کیا جس کا مقصد پشاور میں گاڑیوں کے رش کا خاتمہ اور عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت فراہم کرنا تھی۔ حکومت نے فیصلہ کیا کی بی آر ٹی منصوبے کے تحت جدید، آرام دہ اور ماحول دوست ہائبرڈ بسیں چلائی جائیں گی اور اس کی تکمیل کے بعد پشاور کی پرانی پبلک ٹرانسپورٹ کو سکریپ کردیا جائے گا تاکہ ماحول کو صاف اور آلودگی کو کم کیا جاسکے۔

اگست 2020 کو وزیراعظم عمران خان نے بی آر ٹی کا افتتاح کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

بی آر ٹی کا روٹ 26 کلومیٹر طویل ہے جس میں 31 سٹیشنز ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا 68 کلومیٹر کا فیڈر بس روٹ بھی ہے۔
رواں سال 13 اگست کو وزیر اعظم عمران خان نے بی آر ٹی کا افتتاح کیا تھا۔ اس کے بعد حکومتی منصوبے کے تحت مزدا بسوں کو سڑکوں سے ہٹا دینا چاہیے تھا لیکن ابھی تک نہ صرف یہ بسیں چل رہی ہیں بلکہ حکومت انہیں خریدنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔
ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ اب تک 500 پرانی گاڑیوں کے مالکان نے حکومت کے اعلان کردہ نرخوں کے مطابق اپنی گاڑیاں بیچنے کے لیے درخواستیں جمع کروائی ہیں جب کہ 90 گاڑیوں کے مالکان کو پہلے ہی پیسے ادا کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کئی گاڑیوں کے مالکان کو ابھی تک اسی لیے پیسے نہیں ملے کیونکہ ادائیگی سے پہلے تمام گاڑیوں کی محکمہ ایکسائز سے تصدیق کروائی جاتی ہے اور صرف تصدیق شدہ گاڑیوں کے مالکان کو ادائیگی کی جاتی ہے۔ 

پشاور میں چلنے والی کئی بسیں کافی پرانی ہو چکی ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

پشاور کمبو اڈا میں موجود چار مزدہ بسوں کے مالک وحید استاد نے بتایا کہ بہت سی گاڑیوں کے مالکان اس وجہ سے تفصیلات جمع نہیں کروا رہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت قیمت کم لگا رہی ہے۔
 ’اس پالیسی کی وجہ سے 3000 سے زیادہ خاندان متاثر ہوئے ہیں کیونکہ ہر گاڑی کے ساتھ ایک ڈرائیور اور دو سے تین کنڈکٹرز کی روزی منسلک تھی۔ اس کے علاوہ ان گاڑیوں کے مستریوں، ٹرک آرٹ اور دیگر دکانداروں کے کاروبار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

شیئر: