کہنے کو تو پشاور پھولوں کا شہر ہے اگرچہ اب یہاں پھولوں کے کھیت نظر نہیں آتے لیکن ارد گرد کے دیہات میں اب بھی اتنے پھول اگتے ہیں جو اس کی یہ خصوصیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
پشاور کے مضافات میں واقع کھیتوں میں پھولوں کی بہار رہتی ہے، لیکن جب یہاں سے کاشتکار شہر میںپھول بیچنے آتے ہیں تو ان کو ڈھنگ کی جگہ بھی نہیں ملتی۔
پھولوں کے یہ کاشتکار مضافاتی علاقوں بازیخیل، ماشوخیل،احمد خیل، شہاب خیل، سلیمان خیل اور شیخ محمدی سے رامداس بازار میں ایک چھوٹی سی جگہ پر قائم منڈی میں آتے ہیں تو یہاں پر میونسپل کمیٹی کے اہلکار ان کے درپے ہو جاتے ہیں، اور حیلے بہاںوں سے ان کو اس جگہ سے اٹھا دیتے ہیں، جس کا کرایہ وہ اپنی مزدوری سے ادا کرتے ہیں۔
آج صبح ذاکر خان اپنی سائیکل سرخ گلابوں سے لاد کر اس منڈی میں پہنچے ہیں۔ وہ اس وقت لال، پیلے، سفید اور کاسنی رنگ کے پھولوں کے بیچ بیٹھے ہیں۔
وہ گذشتہ تیس برس سے پھولوں کا کاروبار کر رہے ہیں، اور ہر صبح نماز کے بعد اپنی سائیکل پھولوں سے بھر کر یہاں پہنچ جاتے ہیں۔
لیکن پھولوں سے محبت کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دینے والے ذاکر خان کہتے ہیں کہ مقامی میونسیپل کمیٹی کو ان کا پھولوں کا یہ کاروبار پسند نہیں ہے۔
’یہاں پر کمیٹی والے ہمیں تنگ بہت کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے یہاں پر کیوں یہ منڈی لگائی ہے۔‘
’پھولوں کا کام ویسے بھی بہت نازک ہے، بہت ہی محنت کرتے ہیں۔ کبھی ہمیں زیادہ منافع مل جاتا ہے تو کبھی کم، اس کی مثال بھی سبزی کی طرح ہے کبھی اس کا بھاؤ اوپر جاتا ہے تو کبھی نیچے، ان کی قیمت ایک جگہ مقررہ نہیں‘
ایک اور کاشتکار مشر علی خان کہتے ہیں کہ کمیٹی والوں کو چاہیے تھا کہ ہماری مدد کرتے کیونکہ پھول تو ویسے ہی آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں۔
’پشاور تو پھولوں کا شہر تھا، یہی اس کی پہچان ہے۔ پھولوں کے شہر کی تو ہر وزیر اور مشیر بات کرتا ہے لیکن اس جانب توجہ نہیں دیتا کہ ہمارے لیے ایک جگہ مختص کی جاتی اور ہم وہاں اپنا کاروبار کرتے۔‘
ایک اور گل فروش نے کہا کمیٹی والے آ کر ہمارا کام خراب کر دیتے ہیں، پھر ہمارے پھول کم قیمت میں فروخت ہو جاتے ہیں۔ کبھی تو فروخت بھی نہیں ہوتے واپس لے جاتے ہیں۔
ذاکر خان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کاروبار کی راہ میں مشکلات کھڑی کرنے کے بجائے سہولتیں فراہم کرے تو پشاور ایک بار پھر پھولوں کا شہر بن سکتا ہے۔
’ہم پھولوں کے باغات کے لیے خود ہر چیز کا انتظام کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں مطلوبہ منافع نہیں ملتا۔ یہی سوچ لیتے ہیں کہ منافع اور نقصان تو بہن بھائی ہیں۔ حکومت کاروبار کی بہتری کے لیے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کر رہی، نہ ہمیں ادویات دی جاتی ہیں اور نہ ہی بیجوں کی فراہمی کا کوئی انتظام ہے۔
رامداس بازار کا یہ علاقہ پشاور شہر کے ٹاؤن ون میں آتا ہے۔
ٹاؤن ون کے ایڈمنسٹریٹر سلیم خان کہتے ہیں کہ اس پھول منڈی کے خلاف ہمیں شکایات ملی تھیں کہ ان کی وجہ سے راستے میں رش ہوتا ہے اور روڈ بند ہوجاتا ہے اسی لیے ان کے خلاف دو مرتبہ کارروائی کی گئی۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس پھولوں کے تاجروں کو دینے کے لیے فی الحال کوئی جگہ موجود نہیں ہے، لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کاشتکاروں اور تاجروں نے بھی کبھی آ کر اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی درخواست یا تجویز نہیں دی۔