Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں گاڑیوں کی قیمت بلند ترین سطح پر کیوں؟

پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے اپنی نئی پالیسی میں سے انٹرنیشل اکاونٹ یعنی آئی بی اے این کی شرط لاگو کرنے کے دو مہینے بعد ہی واپس لے لی ہے تاہم پی آر سی  پالیسی کے دیگر حصے نافذ العمل ہیں۔ جس کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونے بجائے غیر معمولی حد تک زیادہ ہو گئی ہیں۔
محمد عادل (فرضی نام) لاہور کے شہری ہیں جن کے بھائی جاپان میں عرصہ 20 سال سے کام کر رہے ہیں انہوں نے حال ہی میں جاپان سے کار منگوائی تاہم حکومت پاکستان کی طرف سے امپورٹڈ گاڑیوں پالیسی میں کی جانے والی تبدیلی سے ان کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ’جب گاڑی بھائی نے ادھر سے بھیجی تو ہمیں پتا چلا کہ حکومت نے پالیسی بدل دی ہے اب جو باہر سے گاڑی بھیجے گا کسٹم بھی اسی کے اکاونٹ سے ادا ہوگا۔ میرے بھائی کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کیونکہ ہم نے سوچا تھا کہ کسٹم کی رقم ہم ادا کر دیں گے۔ اس کے بعد ہم نے انہیں یہاں سے پیسے بھیجے پھر انہوں نے اپنے اکاونٹ سے پاکستان میں پیسے بھیجے جس سے کسٹم کلیئر ہواـ‘
’کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی‘، محمد عادل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’رقم کی ادائیگی ہونے کے بعد بھی کسٹم کلیئر کرنے کروانے کے لیے بھی ہمیں دومہینے کا وقت لگا اور جب آئی بی اے این اکاونٹ سے رقم کی منتقلی نہ ہونے کے جواز بھی بنایا گیا وہ تو شکر ہے حکومت نے وہ شق واپس لے لی اور ہماری رقم کی منتقل کے طریقے کو ایک مہینے کے بعد قبول کر لیا گیا کیونکہ جاپان میں آئی بی اے این سسٹم ہے ہی نہیں وہاں سے رقم سوفٹ کوڈ سے منتقل ہوتی ہے۔‘
عادل بتاتے ہیں کہ ’اتنی مشکلات کے بعد گاڑی کی جو قیمت ہمیں پڑی ہے مارکیٹ سے صرف 50 ہزار روپے کم ہے۔ یعنی اگر وہی گاڑی ہم بازار سے خرید لیتے تو موجودہ پیسوں سے 50 ہزار روپے زیادہ لگتے لیکن ایک گھنٹے میں یہی ماڈل کی گاڑی ہماری ہوتی۔‘

پاکستان میں گذشتہ سال سے گاڑیوں کی قیمتوں کے حوالے سے بحران کی کیفیت ہے۔ ماہرین اور صارفین کے مطابق گاڑیوں کی قیمتوں میں 70 سے 80 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ جبکہ حکومت کی جانب سے امپورٹ پالیسی میں تبدیلی سے درآمد شدہ کاروں کی تعداد میں شدید کمی آئی ہے اور ان کی قیمتوں میں بھیں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ 
عامر سعید بٹ کاروں کے امپورٹر ہیں اور موجودہ صورت حال سے فکرمند ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ’کاروں کا کاروبار تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ جو جاپانی 660 سی سی کار 12 لاکھ کی تھی آج کی تاریخ تک وہ 20 لاکھ روپے کراس کر گئی ہے۔ اور اس سال کاروں کی درآمد میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ 2018 میں 90 ہزار گاڑیاں درآمد ہوئی تھیں اور حکومت کو 90 ارب روپے کسٹم کی مد میں موصول ہوئے تھے۔ اس سال صرف 15 ہزار کار درآمد ہوئی ہے اور حکومت کو اس مد میں 15 ارب روپے کسٹم کی مد میں موصول ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’لوکل کاروں کی اگر آپ بات کریں تو اس وقت دو دسمبر کو تمام کمپنیوں نے اپنی گاڑیوں کی قیمت میں تقریبا ایک لاکھ روپے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ صرف درآمد شدہ گاڑیوں میں کمی ہونا ہے۔ اور وہ حکومت کی پی آر سی پالیسی کی وجہ سے۔‘
حکومتی پالیسی اصل میں ہے کیا؟
پاکستان میں کاریں کاروبار کی غرض سے درآمد کرنے پالسی سرے سے ہے ہی نہیں۔ صرف تین درجے ہیں جن میں کوئی بھی کار پاکستان سے باہر سے آسکتی ہے۔ ایک کیٹیگری میں اگر آپ کسی دوسرے ملک سے پاکستان میں منتقل ہورہے ہیں یعنی رہائش کا ملک بدل رہے ہیں تو آپ ایک گاڑی لا سکتے ہیں۔ 
دوسری کیٹیگری میں اگر آپ کسی دوسرے ملک کے رہائشی نہیں لیکن آپ نے گذشتہ تین سالوں کے اندر دوسال کا وقت کسی دوسرے میں گزارہ ہے تو آپ اپنے ذاتی سامان کی حیثیت سے ایک گاڑی پاکستان میں لا سکتے ہیں۔ جبکہ تیسری اور آخری کیٹیگری یہ ہے کہ آپ کسی دوسرے ملک میں رہائش پذیر ہیں لیکن آپ ایک گاڑی تحفے کے طورپر پاکستان میں اپنے کسی قریبی رشتے دار کو بھیج سکتے ہیں۔ 

فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی پالیسی کے مطابق ایک شخص دوسالوں میں ایک ہی گاڑی پاکستان میں بھیج سکتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کمرشل استعمال کے لیے پاکستان میں گاڑیاں درآمد نہیں کی جاسکتیں اور نہ ہی کوئی پالیسی پھر بھی ہرسال ہزاروں گاڑیاں پاکستان میں کیوں اور کیسے درآمد ہوتی ہیں؟ 
سابق ڈپٹی کمشنر کسٹم محبوب علی سمجھتے ہیں یہ درست ہے کہ کمرشل استعمال کے لیے گاڑیاں درآمد نہیں کی جاسکتی اور صرف ذاتی استعمال کے لئے ہی کی جاسکتی ہیں ’اب یہ ہے کہ جو لوگ باہر سے قانونی دستاویزات پر گاڑیاں منگوا رہے ہیں اور قانون کی تمام شرائط پوری کر رہے ہیں اور کسٹم بھی ادا کر رہے ہیں تو آپ ان کو گاڑیاں بیچنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ قانون تو زیادہ سے زیادہ یہی بن سکتا ہے کہ ایک بندہ ایک ہی وقت میں بیرون ملک سے ایک ہی گاڑی دوسال کے عرصے میں بھیج سکتا ہے اور اس پے عمل درآمد ہورہا ہے اس شخص کا پاسپورٹ دوسال کے لیے اٹیچ ہوجاتا ہے جو بھی باہر سے گاڑی بھیجتا ہے۔‘
پاکستان میں درآمد شدہ گاڑیوں کا نظام
لاہور ہی کے امپورٹڈ گاڑیوں کے ایک اور تاجر محمد عمار (فرضی نام) نے اردو نیوز کو وہ تفصیلات بتائی ہیں جن سے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ پاکستان میں باقاعدہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے امپورٹڈ کاروں کا کاروبار کیسے عروج پر ہے اور ان کی قیمتوں میں اب بے بہا اضافے کی اصل وجوہات کیا ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جو ان قیمتوں کو طے کرتے ہیں ان کی درخواست پر ان کا نام صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔
عمار بتاتے ہیں کہ ’پاکستان میں امپورٹڈ کاروں کا کاروبار اصل میں اس طرح سے قانونی حیثیت نہیں رکھتا جیسا کہ ویسے لوکل نئی یا استعمال شدہ کاروں کا ہے۔ گویا گاڑی امپورٹ کرنے کے لیے تمام قانونی عوامل پورے کیے جاتے ہیں لیکن ہوتا وہ کمرشل مقاصد کے لیے ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے نئی پی آر سی پالیسی سے نظام درہم برہم کر دیا ہے۔ اور اس سے کسی کو بھلا نہیں ہو رہا نہ حکومت کا نہ ہمارا۔ بلکہ الٹا حکومت نے ریونیو کا ایک بڑا ذریعہ کھو دیا ہے۔
پی آر سی پالیسی
محمد عمار نے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پی آر سی پالیسی پچھلے سال لاگو کی ہے۔ ’پروسیڈ رئیلائزیشن سرٹیفیکیٹ یا پی آر سی آسان لفظوں میں ایسی دستاویز ہے جس میں باہرسے گاڑی بھیجنے والا اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے کسٹم کی رقم بھی باہر سے بھیجے گا۔ اوراس کا ایک سرٹیفکیٹ نیشنل بینک سے جاری ہوگا۔ اس میں زحمت یہ ہے کہ ایک گاڑی جس کی مالیت 16 لاکھ روپے یا دس ہزار ڈالر سے زیادہ ہے تو دس ہزار ڈالر سے زائد رقم باہر کے کسی بھی ملک سے پاکستان منتقل کرنا آسان نہیں آپ وہاں کی حکومت کی نظر میں آجائیں گے۔‘
 انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت نے یہ پالیسی صرف اس لیے بنائی تھی کہ باہر سے ڈالر آئیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ لوگ جو گاڑیاں کمرشل استعمال لے لیے منگوا رہے ہیں وہ کسٹم کی رقم یہاں سے باہر بھیجتے ہیں اور دوبارہ گاڑی بھیجنے والے کے اکاؤنٹ سے کسٹم کی شکل میں دوبارہ پاکستان میں بھیج دی جاتی ہے۔ یوں حکومت کو تو ذرا سا بھی فائدہ نہیں البتہ گاڑی منگوانے والے کو رقم کی بار بار منتقلی پر اضافی کر خرچہ کرنا پڑ رہاجس کا براہ راست اثر گاڑی کی قیمت پر پڑتاہے۔‘

اس نظام کے لاگو ہونے سے پہلے لوگ باہر سے گاڑی درآمد کرنے کے بعد پاکستان میں اس کے کسٹم ادا کرتے تھے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں کسٹم گاڑی کی اصل قیمت کے تقریبا برابر ہے۔ محمد عمار نے یہ بھی بتایا کہ ’بڑی گاڑی تو بالکل نہیں آرہی کیونکہ گاڑیوں کے امپورٹر باہر کام کرنے والے پاکستانیوں کے پاسپورٹ گاڑیاں منگوانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اب کسی بھی عام مزدور یا نوکری پیشہ افراد کے اکاؤنٹ میں اچانک ایک خطیر رقم نمودار ہوگی اور وہ پاکستان بھی منتقل ہو گی اس پر ان سے پوچھ گچھ بھی ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ سے کہ لوگ اب گاڑیاں نہیں منگوا رہے۔‘
عمار کے مطابق ’جس شخص کے نام پر گاڑی منگوائی جاتی ہے اب اس کو بھی تین لاکھ سے 25 لاکھ تک ادا کرنا پڑرہا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص باہر بیٹھا آپ کے پیسے کی منتقلی کو قانونی طریقے سے انجام دے رہا ہے تواس کو خود کو بھی ایک صورت حال کا سامنا ہے۔ وہ پیسے بھی اب گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بن چکے ہیں۔ میں نے حال ہی میں ایک گاڑی میرا منگوائی ہے جو کہ اب 21 لاکھ کی ہے اور مجھے اس میں سے صرف 60 سے 70 ہزار بچ رہے ہیں۔‘
گاڑیوں کے تاجر اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں درآمد شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں تو اضافہ سمجھ میں آتا ہے اور وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اس کا فائدہ مقامی پیدواری کمپنیاں اٹھا رہی ہیں اور گاڑیوں کی قیمت میں من مانا اضافہ کر رہی ہیں۔

شیئر: