کار ڈیلرز کے مطابق پیچیدہ طریقہ کار کے باعث باہر سے گاڑی آنا قریباً بند ہو گئی ہے
پاکستان میں گذشتہ چند ماہ سے گاڑیوں کی خرید و فروخت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے جس کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں کمی اور اس کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے علاوہ حکومت کی جانب سے درآمدی ڈیوٹی بڑھانا، لیوی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا اطلاق قرار دیا جا رہا ہے۔
ملک میں اس وقت دو طرح کی گاڑیاں سڑکوں پر نظر آتی ہیں جن میں ایک درآمدی گاڑیاں ہیں جبکہ دوسری قسم مقامی طور پر اسمبل یا تیار کی جانے والی گاڑیوں کی ہے۔
درآمدی گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی ان کی قیمت کے حساب سے عائد ہوتی ہے جبکہ جو گاڑیاں مقامی طور پر اسمبلی کی جاتی ہیں ان کے 60 سے 70 فیصد پرزہ جات بھی بیرون ملک سے درآمد کیے جاتے ہیں جن پر نئی ڈیوٹی عائد ہونے کے باعث پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے۔
سوزوکی اور ٹویوٹا کمپنیوں نے بھی چند ماہ قبل پاکستان میں اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ ایک برس کے دوران 660 سے 800 سی سی گاڑیوں کی قیمتیں 60 ہزار جبکہ 1800 سے 2000 سی سی گاڑیوں کی قیمتوں میں دو لاکھ روپے تک اضافہ کیا گیا ہے۔
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق ٹویوٹا اور ہنڈا دونوں کمپنیاں مل کر سالانہ دو لاکھ 70 ہزار سے دو لاکھ 80 ہزار گاڑیاں اسمبل کرتے ہیں جبکہ ملک میں 60 سے 70 ہزار گاڑیاں درآمد کی جاتی ہیں۔
ڈیلرز کے مطابق سوزوکی مقامی سطح پر سالانہ اوسطاً 70 ہزار گاڑیاں تیار کرتی ہے جبکہ مارکیٹ میں گاڑیوں کی سالانہ طلب دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
دوسری جانب پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال ہنڈا گاڑیوں کی فروخت میں 66 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جولائی 2018ء میں 4,981 کاریں فروخت ہوئیں جن کی تعداد جولائی 2019ء میں کم ہو کر 1,694 تک آ گئی۔
اسی طرح ٹویوٹا کاروں کی فروخت میں بھی 56 فیصد کمی واقع ہوئی۔ جولائی 2018ء میں پانچ ہزار 468 کاریں فروخت ہوئیں لیکن جولائی 2019ء میں صرف 1790 گاڑیاں فروخت ہو سکیں۔ اس طرح سوزوکی گاڑیوں کی فروخت میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی۔
پاما کے مطابق گاڑیوں کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال پر پیشگی کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی انڈسٹری کے لیے شدید نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ اسی طرح روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ بھی انڈسٹری کے لیے تباہ کن ہے۔
پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ترجمان عبدالوحید خان کے مطابق طلب کے باوجود جب قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو لوگ گاڑی خریدنے کا ارادہ موخر کر دیتے ہیں اور اچھے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔
’دیکھیں گاڑی کوئی روٹی تو نہیں ہے نا کہ ہر صورت میں خریدنی ہے۔ ہر ایک کا اپنا بجٹ ہوتا ہے اور جب گاڑی بجٹ سے باہر ہو جائے تو نہ بھی خریدی جائے تو گزارا ہو جاتا ہے تو حالات کی بہتری کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔‘
عبدالوحید خان نے کہا کہ گذشتہ حکومت نے جب نان فائلرز کے گاڑیاں خریدنے پر پابندی عائد کی تو انڈسٹری میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔
’اس فیصلے کے ایک سال کے اندر ہی کار انڈرسٹری آدھی رہ گئی ہے۔ نئی لیوی، اضافی سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی وجہ سے بھی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ یہ پالیسی معاملہ ہے جس کو ابھی سے دیکھ لینا چاہیے کیونکہ ابھی مالی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ اگر حکومت نے اقدامات نہ لیے تو کئی اہداف پورے نہیں ہو سکیں گے۔‘
موجودہ صورتحال سے کار ڈیلرز بھی خوش نہیں ہیں۔ شیر افگن اسلام آباد میں درآمدی اور پرانی گاڑیوں کا لین دین کرتے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت نے گاڑیاں درآمد کرنے کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ کر دیا ہے کہ اب باہر سے گاڑی آنا تقریباً بند ہو گئی ہے۔
’جس بندے کو بھی باہر سے گاڑی درآمد کرنا ہے تو ضروری ہے کہ اس کا کوئی خونی رشتے دار باہر موجود ہو جس کو وہ پاکستان سے کسٹم ڈیوٹی کے پیسے بھیجے اور وہ وہاں سے واپس پیسے کسٹم کو بھیجے اور گاڑی ریلیز کرانے کے لیے اس خونی رشتے دار کا پاسپورٹ لازمی قرار دیا گیا ہے تو ایسے میں کون گاڑی درآمد کرے گا؟‘
کار ڈیلر شیر افگن کہتے ہیں کہ اس صورتحال کا فائدہ مقامی انڈسٹری نے بھی اٹھایا اور جو گاڑی 26 لاکھ روپے کی تھی وہ اب 45 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ مارکیٹ میں پرانی گاڑیوں کی خرید و فروخت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
’ایک بندے نے سات لاکھ روپے کی گاڑی خریدی اب وہ گیارہ لاکھ روپے میں فروخت کرنا چاہتا ہے کیونکہ مارکیٹ میں گاڑیاں مہنگی ہوئی ہیں لیکن گیارہ لاکھ روپے کی پرانی گاڑی کا گاہک موجود نہیں ہے جس سے مارکیٹ میں شدید مندی ہے۔‘
کار ڈیلرز کے مطابق یہ صورت حال ملک کے بھی مفاد میں نہیں ہے کیونکہ اس سے ٹیکس وصولی میں ماہانہ تین ارب روپے کی کمی واقع ہو گی کیونکہ ایک کار کی فروخت سے حکومت کو اس کی قیمت کا 33 فیصد سے 38 فیصد تک ٹیکس کی صورت میں ملتا ہے جبکہ انڈسٹری سے وابستہ 400 مقامی وینڈرز اور ان میں کام کرنے والے لاکھوں ملازمین بھی متاثر ہوں گے۔