Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمہوریت کے لیے تنقید بہت ضروری، بند کریں گےتو نقصان ہوگا:عدالت

عدالت نے قرار دیا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ پاکستان بار کونسل کا کام ہے وہ وکلا کی نمائندہ تنظیم ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کی جانب سے بنائے گئے نئے سوشل میڈیا قواعد  کے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اتھارٹی کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت پر مطمئن کرے کہ قواعد آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم نہیں۔
جمعے کو نئے سوشل میڈیا قواعد کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے پی ٹی اے کو سوشل میڈیا رُولز پر پاکستان بار کونسل کے اعتراضات کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کی۔
 عدالت  نے آبزرویشن دی کہ اگر سوشل میڈیا قواعد سے تنقید کی حوصلہ شکنی ہوئی تو یہ احتساب کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

 

یاد رہے کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے گزشتہ ماہ ترمیم شدہ سوشل میڈیا قواعد کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ تاہم پاکستان بار کونسل، انٹرنیٹ کی خدمات فراہم کرنے والے اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے نئے قواعد کو مسترد کرتے ہوئے انہیں اظہار رائے کی آزادی اور شخصی آزادیوں کے خلاف قرار دیا تھا۔
جمعے کو دوران سماعت چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے اتھارٹی کے وکیل کو آزادی اظہار کے حوالے سے انڈیا کی مثال دینے سے روک دیا۔ انہوں نے وکیل کو ہدایت کی کہ یہاں انڈیا کا ذکر نہ کریں ہم بڑے کلیئر ہیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اگر انڈیا غلط کر رہا ہے تو ہم بھی غلط کرنا شروع کر دیں؟
عدالت نے استفسار کیا کہ ایسے قواعد بنانے کی تجویز کس  نے دی اور کس اتھارٹی نے انہیں منظور کیا؟
چیف جسٹس نے پی ٹی اے سے کہا کہ تنقید کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ حوصلہ شکنی کیونکہ یہ اظہار رائے کا اہم ترین جزو ہے ۔ کوئی بھی قانون اور تنقید سے بالاتر نہیں۔

نئے قواعد کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیاں شکایت کے اندراج کے لیے افسر کا نام اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں گی۔ فوٹو: اے ایف پی

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو سکتی ہے صرف فیئر ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ جب عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو تنقید پر توہین عدالت بھی نہیں بنتی۔ جمہوریت کے لیے تنقید بہت ضروری ہے، اکیسویں صدی میں تنقید بند کریں گے تو نقصان ہو گا۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے نئے قواعد کی کچھ شقوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ آئین سے متصادم ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ پاکستان بار کونسل کا کام ہے وہ وکلا کی نمائندہ تنظیم ہے۔
پی ٹی اے کے حکام نے موقف اختیار کیا کہ قواعد کی منظوری کے وقت پاکستان بار کونسل، اسلام آباد بار کونسل اور دیگر متعلقہ افراد اور اداروں کو تجاویز کے لیے لیٹر لکھے گئے تھے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کے اعتراضات مناسب ہیں۔ یہ عدالت کیوں احتساب سے ڈرے، نہ کوئی قانون سے بالاتر نہ تنقید سے بالاتر ہے۔ جب آپ سقم چھوڑیں گے تو مسائل بھی ہوں گے۔
’یہ قواعد بھی مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ایک چیز یاد رکھیں یہاں ایک آئین ہے اور جمہوریت ہے۔‘
عدالت نے پی ٹی اے سے دوبارہ جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

پاکستان میں کروڑوں افراد سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

نئے سوشل میڈیا قواعد کیا ہیں؟

اس سے قبل حکومت پاکستان نے رواں سال فروری میں سوشل میڈیا مواد کے قوانین متعارف کروائے تھے تاہم ان قوانین پر شدید ردعمل آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ان میں ترمیم کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جسے ترمیم کے بعد حکومت پاکستان نے باضابطہ منظور کر لیا تھا۔
 نئے سوشل میڈیا رولز میں آزادی اظہار رائے کو تحفظ دینے کے لیے شق شامل کی گئی ہے۔ جس کے مطابق ’اتھارٹی کسی بھی مواد یا انفارمیشن میں خلل یا محدود نہیں کرے گی ماسوائے ایسے مواد کے جو اسلام مخالف، پاکستان کی سالمیت، دفاع اور سکیورٹی کے خلاف ہو۔
اس کے علاوہ مفاد عامہ اور عوامی صحت سے متعلق کسی بھی قسم کی غلط معلومات کی تشہیر کے خلاف اتھارٹی کے پاس کارروائی کرنے کا اختیار ہوگا جبکہ ’غیر اخلاقی‘ مواد کو بھی بلاک یا ہٹانے کا اختیار ہوگا۔ 
ترمیم شدہ رولز میں ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جس پر پانچ لاکھ سے زیادہ پاکستانی صارفین موجود ہوں گے خود کو پاکستان میں رجسٹرڈ کروانے اور دفاتر کھولنے کے پابند ہوں گے تاہم اب سوشل میڈیا کمپنیز کو 9 ماہ کا وقت دیا گیا ہے جبکہ پہلے 3 ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔

پاکستان میں حکومت نے کچھ عرصے کے لیے ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی بھی عائد کی۔ فوٹو: اے ایف پی

دستاویزات کے مطابق ’رولز کے اطلاق سے نو ماہ کے اندر پانچ لاکھ سے زائد صارفین رکھنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پی ٹی اے میں خود کو رجسٹرڈ کروائیں گے اور اس عرصے کے دوران پاکستان میں اپنے دفتر کھولنے کے پابند ہوں گے۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا کمپنیز تین ماہ کے اندر فوکل پرسن مقرر کرنے کی پابند ہوں گی جو پی ٹی اے اور سوشل میڈیا کمپنی کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرے گا۔
سوشل میڈیا کمپنیز کو پاکستانی صارفین کے ڈیٹا کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے 18 ماہ کے اندر ایک یا ایک سے زائد ڈیٹا بیس سرور قائم کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی تحقیقات کے لیے سوشل میڈیا کمپنی یا پلیٹ فارم دستیاب معلومات اتھارٹی کو مہیا کرنے کا پابند ہوگا۔
نئے رولز کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیز شکایت کے اندراج کے لیے افسر کا نام اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے گا اور شکایات کے ازالے کے لیے میکنزم تیار کیا جائے گا، اس کے علاوہ سوشل میڈیا کمپنیز کو ایسے میکنزم بھی تیار کرنا ہوں گے جو کہ یقینی بنائیں کہ ایسے مواد کی لائیو سٹریمنگ یا اپ لوڈ ممکن نہ ہو جس میں دہشت گردی، شدت پسندی، نفرت انگیز مواد، فحش، تشدد پر اکسانے یا پاکستان کی سکیورٹی کے خلاف  مواد شامل ہو۔   

شیئر: