اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کی جانب سے بنائے گئے نئے سوشل میڈیا قواعد کے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اتھارٹی کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت پر مطمئن کرے کہ قواعد آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم نہیں۔
جمعے کو نئے سوشل میڈیا قواعد کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے پی ٹی اے کو سوشل میڈیا رُولز پر پاکستان بار کونسل کے اعتراضات کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کی۔
عدالت نے آبزرویشن دی کہ اگر سوشل میڈیا قواعد سے تنقید کی حوصلہ شکنی ہوئی تو یہ احتساب کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
مزید پڑھیں
-
سوشل میڈیا قواعد: ’ڈیجیٹل معیشت کا منصوبہ متاثر ہوگا‘Node ID: 459151
-
’پاکستان کے سوشل میڈیا قواعد اظہار رائے کے لیے دھچکہ ہیں‘Node ID: 461311
-
’گھس کے مارا‘، فواد سوشل میڈیا پر وائرلNode ID: 514296
یاد رہے کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے گزشتہ ماہ ترمیم شدہ سوشل میڈیا قواعد کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ تاہم پاکستان بار کونسل، انٹرنیٹ کی خدمات فراہم کرنے والے اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے نئے قواعد کو مسترد کرتے ہوئے انہیں اظہار رائے کی آزادی اور شخصی آزادیوں کے خلاف قرار دیا تھا۔
جمعے کو دوران سماعت چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے اتھارٹی کے وکیل کو آزادی اظہار کے حوالے سے انڈیا کی مثال دینے سے روک دیا۔ انہوں نے وکیل کو ہدایت کی کہ یہاں انڈیا کا ذکر نہ کریں ہم بڑے کلیئر ہیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اگر انڈیا غلط کر رہا ہے تو ہم بھی غلط کرنا شروع کر دیں؟
عدالت نے استفسار کیا کہ ایسے قواعد بنانے کی تجویز کس نے دی اور کس اتھارٹی نے انہیں منظور کیا؟
چیف جسٹس نے پی ٹی اے سے کہا کہ تنقید کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ حوصلہ شکنی کیونکہ یہ اظہار رائے کا اہم ترین جزو ہے ۔ کوئی بھی قانون اور تنقید سے بالاتر نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو سکتی ہے صرف فیئر ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ جب عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو تنقید پر توہین عدالت بھی نہیں بنتی۔ جمہوریت کے لیے تنقید بہت ضروری ہے، اکیسویں صدی میں تنقید بند کریں گے تو نقصان ہو گا۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے نئے قواعد کی کچھ شقوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ آئین سے متصادم ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ پاکستان بار کونسل کا کام ہے وہ وکلا کی نمائندہ تنظیم ہے۔
پی ٹی اے کے حکام نے موقف اختیار کیا کہ قواعد کی منظوری کے وقت پاکستان بار کونسل، اسلام آباد بار کونسل اور دیگر متعلقہ افراد اور اداروں کو تجاویز کے لیے لیٹر لکھے گئے تھے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کے اعتراضات مناسب ہیں۔ یہ عدالت کیوں احتساب سے ڈرے، نہ کوئی قانون سے بالاتر نہ تنقید سے بالاتر ہے۔ جب آپ سقم چھوڑیں گے تو مسائل بھی ہوں گے۔
’یہ قواعد بھی مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ایک چیز یاد رکھیں یہاں ایک آئین ہے اور جمہوریت ہے۔‘
عدالت نے پی ٹی اے سے دوبارہ جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

نئے سوشل میڈیا قواعد کیا ہیں؟
اس سے قبل حکومت پاکستان نے رواں سال فروری میں سوشل میڈیا مواد کے قوانین متعارف کروائے تھے تاہم ان قوانین پر شدید ردعمل آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ان میں ترمیم کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جسے ترمیم کے بعد حکومت پاکستان نے باضابطہ منظور کر لیا تھا۔
نئے سوشل میڈیا رولز میں آزادی اظہار رائے کو تحفظ دینے کے لیے شق شامل کی گئی ہے۔ جس کے مطابق ’اتھارٹی کسی بھی مواد یا انفارمیشن میں خلل یا محدود نہیں کرے گی ماسوائے ایسے مواد کے جو اسلام مخالف، پاکستان کی سالمیت، دفاع اور سکیورٹی کے خلاف ہو۔‘
اس کے علاوہ مفاد عامہ اور عوامی صحت سے متعلق کسی بھی قسم کی غلط معلومات کی تشہیر کے خلاف اتھارٹی کے پاس کارروائی کرنے کا اختیار ہوگا جبکہ ’غیر اخلاقی‘ مواد کو بھی بلاک یا ہٹانے کا اختیار ہوگا۔
ترمیم شدہ رولز میں ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جس پر پانچ لاکھ سے زیادہ پاکستانی صارفین موجود ہوں گے خود کو پاکستان میں رجسٹرڈ کروانے اور دفاتر کھولنے کے پابند ہوں گے تاہم اب سوشل میڈیا کمپنیز کو 9 ماہ کا وقت دیا گیا ہے جبکہ پہلے 3 ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔
