Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2021 میں کون سی گاڑی خریدنی چاہیے؟

2020 یوں تو کئی حوالوں سے یادگار رہا، یہ بات اور ہے کہ ان میں سے بیشتر یادیں تلخ ہی ہیں لیکن اب یہ برس ختم ہوا چاہتا ہے۔ دسمبر کے آتے ہی وہ وقت آتا ہے جب شاعر اور گاڑیوں کا شوق رکھنے والے بے تاب ہوتے ہیں۔ شاعروں کی وجوہات مختلف ہیں لیکن گاڑیوں سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ ان گاڑیوں کے نئے ماڈلز پر نظر رکھنے کا مہینہ ہوتا ہے۔
نئے فیچرز، نئے انداز، کم ایندھن خرچ کرنے کی صلاحیت اور بہت کچھ انہیں جگائے رکھتی ہے۔
اعدادوشمار دیکھیں تو کورونا وائرس کی پیش قدمی سے قبل سڑکوں اور آٹو مارکیٹ میں گاڑیوں کی ریل پیل تھی۔ 2018 میں پاکستان میں تین لاکھ 30 ہزار نئی گاڑیاں خریدی گئیں۔ کورونا وائرس کے سبب 2020 میں یہ تعداد کم ہو کر ایک لاکھ 20 ہزار رہ گئی یعنی نصف سے بھی کم۔۔۔ لیکن آٹو مارکیٹ پر نظر رکھنے والے 2021 میں دو لاکھ گاڑیوں کی فروخت کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ پاکستانی مارکیٹ میں صارفین کے لیے نئے سال میں کن کن گاڑیوں کے نئے ماڈلز دستیاب ہوں گے؟
سوزوکی کی مہران گاڑی کا نام پاکستان میں کس نے نہیں سن رکھا۔ متوسط طبقے کے لوگوں کی اکثریت نے گاڑیاں خریدنے کا اپنا ڈیبیو اسی گاڑی سے کیا۔ کم قیمت، رکھ رکھاؤ میں کم خرچ، سستے آٹو پارٹس، کسی بھی مکینک کے پاس لے جاؤ، انہی وجوہات کی بنا پر کچھ لوگ اسے گاڑیوں کی موٹرسائیکل بھی کہتے تھے، لیکن اب یہ بننا بند ہوچکی ہے اس لیے 2021 میں اس کے نئے ماڈل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے کار ایکسپرٹ سید فواد بصیر کہتے ہیں کہ اب سوزوکی آلٹو نے مہران کے مقابلے میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ اس کا نیا ماڈل 17 سے 18 لاکھ روپے میں دستیاب ہوگا اور یہی نئے ماڈلز میں 2021 کی سب سے سستی گاڑی ہوگی۔
جو گاڑیاں 2021 میں پاکستان میں نئے ماڈلز لانچ نہیں کرسکیں گی، سوئفٹ ان میں سے ایک ہے۔ لیکن اس بار ہونڈا برانڈ کے حوالے سے صارفین کو کافی امیدیں وابستہ ہیں۔
’ہونڈا کا بی آر وی ماڈل پہلے ہی کامیاب ہے اور امکانات ہیں کہ 2021 میں یہ سٹی کا نیا ماڈل لانچ کریں گے، تاہم ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ یہ سکس جنریشن ماڈل ہوگا یا سیون جنریشن۔‘

آٹو مارکیٹ پر نظر رکھنے والے 2021 میں 2 لاکھ گاڑیوں کی فروخت کی پیش گوئی کررہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

فواد بصیر مزید بتاتے ہیں کہ ایسا ہونڈا کمپنی ٹویوٹا کو ٹکر دینے کے لیے کر رہی ہے اور اس ٹکر کی وجہ ہے ٹویوٹا کا نیا ییرس ماڈل، ٹویوٹا ییرس نئے فیچرز سے بھرپور ماڈل ہوگا۔ اس میں کم ایندھن خرچ کرنے اور توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت سرفہرست ہے۔ یہ نیا ماڈل 1300 سی سی اور 1500 سی سی میں دستیاب ہوگا۔
پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں 800 سی سی، 800 سے 1300 سی سی اور 1300 سے 1800 سی سی کی گاڑیاں دستیاب ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں 800 سے 1300 سی سی کی گاڑیاں خریدنے کا رجحان بڑھا ہے۔ یہ گاڑیاں کم ایندھن استعمال کرتی ہیں اور زیادہ مائلج دیتی ہیں۔
اب باری آتی ہے ان صارفین کی جو سمجھتے ہیں کہ شوق کا کوئی مول نہیں۔ کار لوورز ان دنوں مڈسائز ایس یو ویز گاڑیوں کے شیدائی نظر آتے ہیں۔
ہنڈائی نشاط کی ٹوسان ان مڈ سائز ایس یو وی میں قابل ذکر ہے۔ گاڑیوں کی اسی کیٹیگری میں کیا موٹرز بھی 2021 میں ایک مڈسائز سیگمنٹ سیڈان لانچ کرنے جارہا ہے جو ٹویوٹا اور ہونڈا سے مارکیٹ میں مقابلہ کرے گی۔
ایم جی موٹرز اور گلوری پرو نامی کمپنیاں بھی نئے سال میں نئے ماڈلز لانچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جو پاکستان میں دستیاب ہوں گے۔
فواد بصیر کے مطابق یہ گاڑیاں 1500 سے 2000 سی سی کے درمیان ہوں گی۔ ان میں کچھ ماڈلز ہائبرڈ ہوں گے جبکہ کچھ ماڈلز ٹربو بھی ہوں گے۔ ان میں پینارومک روفس، ہل کلائمنگ جیسے نئے فیچرز شامل ہوں گے۔ ایس یو وی کا یہ نیا سیگمنٹ ہے اس سے پہلے پاکستان میں مقبول نہیں ہوسکا ہے۔ ان کی قیمتیں 45 لاکھ اور 50 لاکھ کے درمیان ہوں گی۔ اس کے علاوہ ٹویوٹا انڈس موٹرز کمپنی اپنے فلیگ شپ ماڈل کرولا کے 2021 میں نئے ماڈل کو ٹویوٹا ایکس کے نام سے لانچ کرنے جا رہا ہے۔ یہ ماڈل سال نو جنوری میں لانچ کردیا جائے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گاڑیاں تو اسمبل کی جاتی ہیں لیکن مینوفیکچر نہیں ہوتی (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان صرف مقامی برانڈز کی ہی مارکیٹ نہیں بلکہ یہ درآمد شدہ گاڑیوں کی بھی بڑی مارکیٹ میں شمار ہوتا ہے۔ سڑکوں اور شاہراہوں پر اب بھی جاپانی گاڑیوں کی بھرمار ہے اور لوگ ان کے دلدادہ بھی نظر آتے ہیں۔ تو کیا مقامی طور پر تیار کیے گئے یہ نئے ماڈلز ان درآمد شدہ گاڑیوں کو ٹکر دے پائیں گے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے بات کی ایچ ایم شہزاد سے جو آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین ہیں۔ ان کا نقطہ نظر اچھا خاصا مختلف ہے۔ یہ ہمیں تھوڑا ماضی میں لے جانا چاہتے ہیں۔
2198 میں سوزوکی جو بعد میں پاک سوزوکی ہوگئی، 1991 میں ٹویوٹا اور 1992 میں ہونڈا نے پاکستان میں اسمبلنگ پلانٹس لگائے۔ سوزوکی کو معاہدے کے مطابق پانچ سال بعد ہمیں اس شعبے کی ٹیکنالوجی منتقل کرنا تھی، لیکن ہم آج بھی گاڑیوں کے پارٹس درآمد کرکے انہیں اسمبل کرتے ہیں۔ ہم مینوفیکچرز نہیں ہیں، ہم یہ دعویٰ کر ہی نہیں کرسکتے، ان میں بھی زیادہ تر سامان چین یا تھائی لینڈ سے آرہا ہے۔‘
ایچ ایم شہزاد صرف یہیں نہیں رکتے بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں۔ ان کے مطابق مقامی کمپنیوں کو ایئر بیگز جیسی ضروری اور بنیادی سہولت کے لیے علیحدہ سے بتانا پڑتا ہے جس کے الگ سے پیسے بھی لیے جاتے ہیں۔
’یہاں جو ماڈل 2020 میں اسمبل ہوتا ہے وہ دنیا میں پانچ سال پہلے آچکا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت الیکٹرانک کاروں کا سوچا بھی نہیں جاسکتا جبکہ دیگر جگہ ان کا رجحان بڑھ رہا ہے۔‘

گاڑیوں کے شوقین گاڑیوں میں نیے فیچرز کا بھی انتظار کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

درآمد شدہ گاڑیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’2018 اور 2019 میں 85 ہزار گاڑیاں پاکستان درآمد کی گئیں اور ان سے حکومت کو 100 ارب روپے کا ریوینو دیا گیا تھا۔ لیکن گذشتہ ڈھائی سال میں پابندیوں کی وجہ سے مقامی سطح پر گاڑیوں کی قیمتیں بہت اوپر چلی گئی ہیں۔ اگر حکومت 5 سال پرانی گاڑیوں کو کمرشلی درآمد کرنے کی اجازت دے دے تو وہ مقامی طور پر لانچ کیے گئے گاڑی کے نئے ماڈل سے قدرے بہتر ہوں گی اور ہم اسے 7 لاکھ روپے میں صارفین کی پہنچ میں لاسکتے ہیں۔‘

شیئر: