اسامہ کی ہلاکت کا واقعہ وزیر اعظم کے پولیس لائن دورے کے کچھ ہی دن بعد ہوا (فوٹو: اسامہ فیس بک)
22 سال، آخر یہ بھی کوئی عمر ہے کہ بھرپور جوانی کی دہلیز پر کھڑا نوجوان اسامہ ستی دنیا سے چلا جائے۔ 22 سال کی عمر کا لا ابالی پن، مستیاں اور چھوٹی چھوٹی بیوقوفیاں۔ ہم میں ہر کوئی اس فیز سے گزرا ہے۔
آج پیچھے مڑ کے دیکھیں تو اپنی ہی نادانیوں پر ہنسی آجاتی ہے۔ کیا گاڑی نہ روکنے کی بیوقوفی کی اتنی بھیانک قیمت بھی ہوتی ہے کہ نصف درجن کے قریب گولیاں کسی کے جسم میں اتار دی جائیں۔
یہ واقعہ وزیر اعظم کے پولیس لائن دورے کے کچھ ہی دن بعد ہوا ہے۔ لگتا ہے وزیراعظم کی حوصلہ افزا ہدایتیں بھی پولیس افسروں میں احساس ذمہ داری تو کیا پیدا کرتیں نتیجہ الٹا ہی نظر آ رہا ہے۔
نئے وزیر داخلہ نے بھی پولیس کی کارکردگی میں بہتری کے کافی سہانے خواب دکھائے۔ اپنی آمد کے ساتھ ہی انہوں نے پولیس ناکوں کے خاتمے کا اعلان کیا جس سے عوام نے کچھ حد تک سکھ کا سانس ضرور لیا۔ مگر اس واقعہ کے بعد تو لگتا ہے وہ ناکے ہی بہتر تھے اور یا پھر پولیس والوں کو ناکے ختم ہونے کا اتنا غصہ تھا کہ اس کا اظہار انہوں نے گولیوں کی شکل میں کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں اگر پولیس کی اپروچ یہ ہے تو باقی ملک میں کیا ہو گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کس طرح ایسے واقعات کو روکا جائے؟ اور آخر میں یہ کہ اسامہ کے بعد کیا پولیس کا قبلہ گولی سے گفتگو کی طرف لایا جائے گا؟
اگر پولیس کی کارگردگی اور کلچر کی بات ہو تو پی ٹی آئی کے بلند و بانگ دعوں کا ذکر کیے بغیر چارہ نہیں۔ خیبر پختونخواہ سے اصلاحات نے پنجاب پہچنا تھا مگر وہ کہیں راستے میں ہی کھو گئیں۔
وفاقی دارالحکومت جس کو ایک نمونے کے طور پر چلانا چاہیے وہاں ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا کہ اصل اختیار کس کے پاس ہے۔ دو وزیر داخلہ بھی موجود ہیں اور وزیر اعظم خود بھی میٹنگز پر میٹنگز کرتے ہیں۔
انتظامیہ اور پولیس کے ذمہ داران بھی یقینا منجھے ہوئے اور تجربہ کار ہوں گے مگر اس کے باوجود پولیس کی کارگردگی سب کے سامنے ہے۔ جرائم میں کمی ہے نہ پولیس کے رویے میں بہتری۔
اگر اس واقعے کی جزیات میں جایا جائے تو اسامہ کو ہلاک کرنے والے اہلکار انسداد دہشت گردی فورس کے تھے۔ آخر کیا وجہ ہوئی کہ جدید ترین اسلحہ دے کر ان کو گاڑیوں کی چیکنگ پر لگا دیا گیا۔ اگر سیاہ شیشوں کے خلاف کوئی مہم چلانی ہی ہو تو اس کو منظم انداز میں عام پولیس اور عوام کو ساتھ لے کر چلانا چاہیے نہ کے چوراہوں پر فائرنگ کی مشق سے یہ کام کیا جائے۔
ابھی مکمل رپورٹ کا انتظار ہے مگر انکوائری اور تفتیش دونوں ہی انتظامیہ اور پولیس کے اپنے پاس ہیں۔ بہتر ہوتا کی اس کی انکوائری ہائی کورٹ کے جج سے کرائی جاتی۔ اسامہ کو گولی مارنے والے تو پکڑے گئے مگر پولیس کی سرگرمیاں، ٹریننگ اور رویے کو کیسے بہتر کیا جائے کہ اس قسم کے واقعات نہ ہو سکیں اس کے لیے ایک جامع اور غیر جانبدار فورم کا پولیس ورکنگ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
امید ہے کہ حکومت اس واقعے کو سیریس ایشو کی علامت کے طور پر لے گی اور اس کی تحقیقات کے نتیجے میں پولیس کے رویے میں حقیقی تبدیلی لانے کی کوشش کرے گی۔
پولیس کا رویہ، تشدد اور طاقت کا استعمال پوری دنیا میں موضوع بحث ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی عوام کو جنھجھوڑ دیتا ہے اور یہ تو واقعہ نہیں سانحہ ہے جس میں ایک بے گناہ جان کو بہیمانہ طریقے سے چھین لیا گیا ۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ پولیس اہلکار اسامہ کو ڈانٹ ڈپٹ لیتے، یا تھانے لے جا کر گاڑی بند کر لیتے، یا گاڑی کا پیچھا ہی نہ کرتے اور جانے دیتے۔ مگر دماغ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک منظم فورس کا ایسا رد عمل کیوں کر اور پھر ایک دو نہیں پانچ کے پانچ اہلکاروں نے گولیوں کے منہ کھول دیے۔
ایک ایسی فورس جس کے ذمے عوام کی جان و مال کی حفاظت ہو اس کا ایسا عمل لمحہ فکریہ نہیں بلکہ المیے کا مقام ہے۔
امریکہ میں پولیس کی طرف سے ہلاکتوں کے بعد بلیک لائیوز میٹر کی تحریک چل پڑی ہے یہ نہ ہو کہ اسامہ کے بعد پاکستان میں ینگ لائیوز میٹرکی تحریک چل پڑے۔ اس سے پیشتر ہی ارباب اختیار کو پولیس سمیت جاگنا ہوگا اور اپنا قبلہ عوام پر جبر سے عوام کی حفاظت کی طرف لانا ہو گا۔