حکومت اور کسانوں کے درمیان مذاکرات میں اب تک ڈیڈ لاک موجود ہے۔
کسان ایک مہینے سے زیادہ عرصے سے سخت سردی میں دہلی کی مختلف سرحدوں پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور ان کا احتجاج جاری ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے حکومت مقرر کر دہ نرخوں پر اناج خریدنا بند کر دے گی اور اس کے نتیجے میں تجارتی کمپنیاں ان کے غلے کی سستے داموں میں خریداری کریں گی۔
کسانوں کے مطابق ان حکومتی اقدامات سے زرعی شعبے پر بڑی کمپنیوں کا تسلط قائم ہو جائے گا، جو قیمتیں کم کرنے پر مجبور کریں گی۔ جب کہ حکومت کا موقف ہے کہ یہ تبدیلیاں زرعی شعبے کے مضبوط مستقبل کے لیے ضروری ہیں۔
گذشتہ ہفتے وزیراعظم نریندر مودی نے کسانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی مفادات رکھنے والوں کے بیانات سے گمراہ نہ ہوں۔
تاہم مظاہرین نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ انہیں بدنام کرنے کے لیے غلط بیانیے کو پھیلا رہی ہے۔
اب تک کسانوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے سات دور ناکام ہو چکے ہیں۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت نئے زرعی قوانین کو مکمل طور پر واپس لے۔
گزشتہ سال متعارف ہونے والی نئی سکیم کے تحت مودی حکومت نے نو کروڑ کسانوں کے لیے دو ارب 50 کروڑ ڈالر کا مالیاتی پیکج ریلیز کیا تھا۔