العُلا کی تاریخی حیثیت اور خُوب صورتی
العلا نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی غیر معمولی دلچسپی کا حامل ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
سعودی عرب تاریخی تہذیب کے قدیم دارالحکومت ’العلا‘ نے 41 ویں خلیج تعاون کونسل کی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی ہے۔
سربراہ کانفرنس وادی العلا کے المرایا کنسرٹ ہال میں منعقد ہوئی۔ یہ ہال ساڑھے 9 ہزار مربع میٹر رقبے پر مشتمل ہے اور آئینے سے ڈھکا ہوا ہے اسی وجہ سے اس کا نام المرایا ہے۔ عمارت کے گرد جڑے یہ آئینے حیرت انگیز مناظر کا عکس دکھائی دیتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق العلا کو ہزاروں برس کے دوران یکے بعد دیگرے آنے والی تہذیبوں نے تعمیر کیا تھا اور اسے تین براعظموں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے مشرق اور مغرب کے درمیان ثقافتی تبادلے کا مقام سمجھا جاتا ہے۔
العلا کا پرانا قصبہ مملکت کے شمال میں مدائن صالح نامی تاریخی جگہ سے تقریباً 20 کلومیٹر دور واقع ہے۔ سات صدی قدیم یہ مقام مساجد و بازاروں سے بھرا ہوا ہے جو اس کی تاریخی حیثیت اور خوبصورتی کو اجاگر کرتا ہے۔
تاریخی آثار سے بھرپور علاقہ اہم تجارتی مرکز رہا ہے جو شمال اور جنوب کو ملانے کے ساتھ ساتھ شام اور مکہ کے درمیان سفر کرتے زائرین کا اہم ٹھکانہ بھی ہوتا تھا۔
العلا نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی غیر معمولی دلچسپی کا حامل ہے۔ یہاں قدیم تہذیب و ثقافت کے آثار آج بھی موجود ہیں جنہیں لوگ دلچسپی سے دیکھنے آتے ہیں۔
سعودی ایئرلائنز کی ریاض، جدہ اور دمام سے العلا کے لیے پروازیں دستیاب ہیں۔ العلا ریاض سے دس گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے، جدہ سے سات گھنٹے اور مدینہ اور تبوک کے ہوائی اڈوں سے صرف تین گھنٹے کی دوری پر ہے۔
اس علاقے میں ’الطنطورہ‘ کا میلہ بھی منعقد کیا جاتا ہے۔ چند ہفتے قبل دسمبر میں العلا کمشنری کے ایئر پورٹ کی توسیع کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ العلا رائل کمیشن کے مطابق ہوائی اڈے کی توسیع سے قبل یہاں سالانہ مسافروں کی گنجائش ایک لاکھ تھی جو اب بڑھ کر 4 لاکھ ہو جائے گی۔