لاشوں کے ہمراہ دھرنا دینے کی روایت جنوری 2013 میں قائم ہوئی تھی (فوٹو: فیس بُک)
بلوچستان کے علاقے مچھ میں شدت پسندوں کے ایک حملے میں دس کوئلہ کان کنوں کے قتل کے خلاف کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا گذشتہ تین روز سے میتوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
ہزارہ برادری کا لاشوں کے ہمراہ دھرنا دینے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی مواقع پر اس طرز کا سخت احتجاج ریکارڈ کر کے عالمی سطح پر توجہ حاصل کر چکے ہیں۔
لاشوں کے ہمراہ دھرنا دینے کی روایت جنوری 2013 میں قائم ہوئی تھی جب کوئٹہ کے ہزارہ اکثریتی آبادی والے علاقے علمدار روڈ پر واقع ایک سنوکر کلب میں خودکش حملہ کیا گیا۔ ہجوم کے جمع ہونے کے بعد ایک دوسرا حملہ بھی ہوا۔
ان دونوں حملوں میں 120 سے زائد افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہوئے۔
یہ جانی نقصان کے لحاظ سے بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ تھا اس لیے متاثرین میں غم و غصہ بھی زیادہ تھا۔
مرنے والے 86 افراد کے لواحقین نے میتوں کی تدفین سے انکار کرتے ہوئے مسلسل چار روز تک شدید سردی میں لاشوں کے ہمراہ کھلے آسمان تلے احتجاجی دھرنا دیا۔ اس احتجاج نے عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل کی۔
صوبائی حکومت دھرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہوئی تو وزیراعظم راجا پرویز اشرف خود دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کرنے کوئٹہ پہنچے۔
وزیراعظم نے دھرنے کے شرکا کے مطالبے پر آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کی حکومت برطرف کر دی اور صوبے میں دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ کردیا۔ گورنر راج کے نفاذ کے بعد لواحقین نے چار روز سے جاری دھرنا ختم کیا اور میتوں کی تدفین کی۔
اس واقعے کے ایک ماہ بعد یعنی فروری 2013 میں گورنر راج کے دوران ہی ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ میں ایک اور خودکش حملہ ہوا۔ خودکش حملے میں بارود سے بھرا واٹر ٹینکر استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں 80 افراد کی جانیں چلی گئیں۔
ایک بار پھر ہزارہ برادری نے میتوں کی تدفین سے انکار کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا اور حکومت کو ملزمان کی گرفتاری کے لیے اڑتالیس گھنٹوں کا وقت دیا گیا۔
اس کے بعد حکومت نے کوئٹہ، مستونگ اور اس کے اطراف میں کالعدم تنظیموں کے خلاف سرچ آپریشن شروع کر دیا اور چار انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا۔
اس آپریشن کے بعد ہزارہ برادری نے احتجاج ختم کر کے چوتھے دن میتوں کی تدفین کی تھی۔
ان دو بڑے واقعات کے بعد بھی ہزارہ برادری پر حملوں کا سلسلہ رکا نہیں تاہم اس میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں ہونے والے 13 حملوں میں ہزارہ برادری کے 231 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 2015 میں ہزارہ برادری کے 21 افراد کی موت ہوئی۔
اس کے بعد آنے والے سالوں میں حملوں میں مزید کمی آتی گئی۔
اپریل 2018 میں ایک مرتبہ پھر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی۔
ایک ہی ماہ میں ہزارہ برادری پر چار حملے ہوئے جن میں ٹیکسی ڈرائیور سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تو کوئٹہ میں علمدار روڈ پر ٹیکسی ڈرائیوروں نے دھرنا دے دیا، جبکہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر اور بی این پی کے رہنماؤں نے پریس کلب کوئٹہ کے سامنے الگ الگ کیمپ قائم کرکے تا دم مرگ بھوک ہڑتال شروع کر دی۔
جلیلہ حیدر کا مطالبہ تھا کہ وہ تب تک بھوک ہڑتال ختم نہیں کریں گی جب تک آرمی چیف کوئٹہ آکر انہیں تحفظ کی یقین دہانی نہیں کراتے۔ بھوک ہڑتال کے پانچویں روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کوئٹہ جا کر جلیلہ حیدر کا احتجاج ختم کروایا تھا۔
اپریل 2019 میں کوئٹہ کی ہزار گنجی سبزی منڈی میں بم دھماکے میں ہزارہ برادری کے دس افراد سمیت بیس افراد ہلاک ہوئے تو ایک بار پھر کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر دھرنا دیا گیا۔ چار روز تک جاری رہنے والا یہ دھرنا وزیر مملکت شہریار آفریدی اور وزیراعلیٰ جام کمال کی یقین دہانی پر ختم کیا گیا۔
بیس ماہ کے وقفے کے بعد 3 جنوری کو ہزارہ برادری پر ایک مرتبہ پھر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔
ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرنے والے ہزارہ برادری کے دس کان کنوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا تو متاثرہ خاندانوں نے ایک بار پھر احتجاج کا راستہ اپنایا۔
دھرنے کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ صوبائی حکومت استعفیٰ دے اور وزیراعظم عمران خان خود کوئٹہ آکر انہیں تحفظ کی یقین دہانی کروائیں۔