مچھ میں دس کان کنوں کا تیز دھار آلے سے قتل، ہزارہ برادری کا دھرنا جاری
مچھ میں دس کان کنوں کا تیز دھار آلے سے قتل، ہزارہ برادری کا دھرنا جاری
اتوار 3 جنوری 2021 9:35
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق مرنے والوں کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا (فوٹو: اردو نیوز)
بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں کان کنوں کے قتل کے خلاف مغربی بائی پاس شاہراہ پر دھرنہ جاری ہے جس میں خواتین، بچے اور بزرگ بھی شریک ہیں۔
مچھ سے دس مقتول کانکنوں کی لاشیں ایمبولنسز میں کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن پہنچا دی گئی ہیں۔ ہلاک والے تمام افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔
سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب پیش آنے والے واقعے میں نامعلوم شدت پسندوں نے کم از کم دس کان کنوں کو قتل کر دیا تھا۔
ہزارہ قبیلے کے معتبرین اور لواحقین نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ ہلاک ہونے والے کان کنوں کو پیر کے روز ہزارہ ٹاؤن قبرستان میں دوپہر ایک بجے سپرد خاک کیا جائے گا، جبکہ دھرنا جاری رہے گا۔
ہزارہ قومی جرگے نےمغربی بائی پاس پر دھرنا جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب شدت پسند تنظیم داعش نے مچھ میں کان کنوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شدت پسند تنظیم سے منسلک اعماق نیوز ایجنسی پر شائع ہونے والے بیان میں 10 کان کنوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
واقعے کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد کوئٹہ کی ہزارہ برادری نے احتجاج کرتے ہوئے مغربی بائی پاس شاہراہ پر دھرنا دے دیا ہے۔ کوئٹہ کی شدید سردی میں دھرنے کے شرکاء آگ جلا کر بیٹھے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ہزارہ قبیلے کے رہنماء اور بلوچستان شیعہ کانفرنس کے صدر داؤد آغا نے کہا کہ ’ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، حکومت نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو عوامی احتجاج سے حکومت کو منہ کے بل گرا دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان، چیف آف آرمی سٹاف سے گزارش ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کا نوٹس لیں۔‘
وزیراعظم عمران خان اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال نے الگ الگ بیانات میں مچھ میں کان کنوں کے قتل کی مذمت کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا ہے کہ ’معصوم کان کنوں کا قابل مذمت قتل انسانیت سوز بزدلانہ دہشگردی کا ایک اور واقعہ ہے۔ ایف سی کو حکم دیا گیا ہے کہ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے قاتل گرفتار اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑے کئے جائیں۔ حکومت متاثرہ خاندانوں کو بالکل تنہا نہیں چھوڑے گی۔‘
سیکرٹری داخلہ بلوچستان حافظ عبدالباسط نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ہلاک ہونے والے تمام افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے، جن میں سے بیشتر افغان شہری تھے جو محنت مزدوری کی غرض سے بلوچستان آئے ہوئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ واقعہ جہاں ہوا ہے وہ پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں موبائل سگنلز نہیں اس لیے تفصیلات حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
قبل ازیں اسسٹنٹ کمشنر مچھ سمیع آغا نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ واقعہ سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب کوئٹہ سے 80 کلومیٹر دور مچھ میں گشتری کے مقام پر پیش آیا جہاں نامعلوم شدت پسندوں نے کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ سورہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’حملہ آوروں نے رہائشی کوارٹرز میں موجود کان کنوں کو شناخت کے بعد الگ کیا اور ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں تیز دھار آلے سے بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ مقام سڑک سے 10 کلومیٹر دور پہاڑوں کے اندر واقع ہے۔ واردات کے بعد حملہ آور فرار ہوگئے۔ لیویز، پولیس اور ایف سی کی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ لاشیں سول ہسپتال مچھ منتقل کی جارہی ہیں۔
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے مچھ کے علاقے گشتری میں کارکنوں پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کی ہے
صوبائی وزیر داخلہ نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ ملزمان کی گرفتاری میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔
ان کے مطابق صوبے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے اور ریاستی دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو، نا قابل قبول ہے۔
دوسری طرف جائے حادثہ پر ہزارہ برادری کے افراد احتجاج بھی کررہے ہیں۔
مچھ بلوچستان کا کوئلے سے مالا مال علاقہ ہے جہاں کوئلہ نکالنے کے لیے سینکڑوں کانوں میں ہزاروں کان کن کام کرتے ہیں۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کی بڑی تعداد بھی یہاں کان کنی کے شعبے سے وابستہ ہے۔
مچھ اور اس کے اطراف میں کان کنوں اور ہزارہ برادری کے افراد پر اس سے پہلے بھی کئی حملے ہوچکے ہیں۔ کان کنوں پر حملوں میں زیادہ تر بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں ملوث ہوتی ہیں، جبکہ ہزارہ برادری کے افراد پر حملوں کی ذمہ داری ماضی میں مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔