Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ ٹیکوں کا سال ہوگا

انڈیا نے ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
آپ کی زندگی کی باقی ترجیحات چاہے جو بھی ہوں، ان میں زندہ رہنا تو شامل ہوگا ہی۔ اور اگر ہے تو نئے سال میں اچھی خبر یہ ہے کہ کورونا وائرس کا ٹیکہ تیار بھی ہے اور ہندوستان میں اس کے استعمال کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔
اب بس چند ہی دنوں کی بات ہے کہ ہم ہیلتھ سینٹرز کے آگے قطاریں لگائیں گے اور اس کے بعد ہماری زندگی، اچھی یا خراب، کم سے کم پھر ویسی ضرور ہوجائے گی جیسی پہلے ہوا کرتی تھی۔
بشرطیکہ ٹیکے کامیاب ثابت ہوئے، ان کے زیادہ سائڈ افیکٹس یا مضر اثرات سامنے نہیں آئے اور دشمن وائرس نے اپنا حلیہ زیادہ نہیں بدلا جیسا کہ وہ برطانیہ میں کر رہا ہے۔
یہ شاطر وائرس ہے اسے قابو کرنا آسان نہیں ہے۔
کوئی بھی جنگ جیتنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ دشمن کی ٹھیک سے نشاندہی یا شناخت کر لی جائے، پھر اس سے مقابلہ کرنے کے لیے ترکش میں وہ تمام تیر شامل کیے جائیں جو اس کے ہر حملے کو ناکام بنا سکیں۔
انڈیا میں یہ ہی کیا جا رہا ہے۔ حکومت کے نگراں اداروں نے دو ٹیکوں کے استعمال کی منظوری دے دی ہے۔ ایک وہ جوآکسفرڈ اور ایسٹرا زینیکا نے مل کر تیار کیا ہے اور جو مہینوں سے بھاری مقدار میں انڈیا کی ایک کمپنی میں بنایا جارہا ہے۔
یہ ٹیکہ آزمائش کے وہ تمام مراحل پار کر چکا ہے جن کے بعد ہی کسی ٹیکے کےاستعمال کی منظوری دی جانی چاہیے۔
اور دوسرا انڈیا کی ہی ایک کمپنی بھارت بائیوٹیک نے بنایا ہے۔ لیکن اسے آزمائش کے مراحل طے کرنے سے پہلے ہی ہنگامی حالات میں استعمال کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
اس فیصلے پر ’غیر سرکاری‘ سائنسدان ہوش ربا ہیں۔

انڈیا میں چند مسلم تنظیمیں بھی ویکسین لگوانے کی مخالف ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

آپ کسی عسکری کمانڈر سے پوچھیں گے تو وہ شاید یہ ہی کہے گا کہ ہتھیار خریدنے سے پہلے انہیں آزمایا جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیسے بھی جائیں اور تیر دشمن کے بجائے چلانے والے کو ہی نشانہ بنانے لگے۔
لیکن سرکاری اداروں کی قیادت کرنے والے سائنسدانوں کو لگتا ہے کہ پوت کے پیر پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں، اس لیے انہیں لگا کہ جب (ٹیکے کی) شروعات اچھی ہے تو انجام بھی اچھا ہی ہوگا، چلو ٹرائی مار کر دیکھ لیتے ہیں حالانکہ ابھی اسی کی ’ایفیکیسی‘ یا افادیت کے بارے میں کوئی مطالعہ مکمل نہیں ہوا ہے۔
خیر یہ مسائل ان لوگوں کے ہیں جو ٹیکہ لگوانے کے لیے تیار ہوں گے اور اور جن کے حصے میں آکسفورڈ کا ٹیکہ نہیں آئے گا۔ (انڈیا میں فی الحال یہ ہی دو ٹیکے دستیاب ہونے کا امکان ہے)۔
لیکن ان لوگوں سے آپ کیا کہیں گے جو ٹیکہ لگوانے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کی ترجیحات میں زندہ رہنا شامل ہی نہ ہو۔
لیکن جب اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھیلیش یادو جیسا کوئی سینیئر سیاسی رہنما کہے کہ ’ہمیں بی جے پی کے ٹیکے پر بھروسہ نہیں ہے اور ہم یہ ٹیکہ نہیں لگوائیں گے‘ تو بات سمجھنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔
بی جے پی والے آج کل اپنی سیاسی فیکٹریوں میں ’لو جہاد‘ کا ٹیکہ بنانے اور ہنگامی قوانین کے ذریعے انہیں نوجوانوں کو لگانے پر زیادہ فوکس کر رہے ہیں، کورونا وائرس کے ٹیکے سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
اور اس مہم میں اکھیلیش یادو اکیلے شامل نہیں ہیں۔

انڈیا کی بائیو ٹیک کمپنی کی ویکسین کے ٹرائل مکمل نہیں ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

کچھ سرکردہ مسلم تنظیمیں بھی ٹیکے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ انہیں حلال اور حرام کی فکر ہے۔
بھائی ٹیکہ لگوانے کے لیے آپ کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کرے گا۔
نہیں لگوانا تو سینٹر پر مت جائیے، بات ختم، گھر سے کھینچ کر کوئی لے جانے والا نہیں ہے۔ اپنی ترجیحات کی فہرست سے زندہ رہنے کا عزم کاٹ دیجیے اور اپنے کام پر لگیے۔ اور اپنے اس یقین پر قائم رہیے کہ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔
لیکن جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ جو ہونا ہے وہ تو ہو کر رہے گا لیکن احتیاط کرنا بھی ہمارا فرض ہے، انہیں گمراہ مت کیجیے۔
انڈیا میں چیچک اور پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ان بیماریوں پر قابو انہیں ٹیکوں کی وجہ سے پایا جاسکا جن کی کچھ اسی طرح کے لوگوں نے بہت مخالفت کی تھی۔
کورونا وائرس ایک سازش ہے، یہ تھیوری آپ نے خوب سنی ہوگی، فیس بک اور واٹس ایپ یونیورسٹی میں اس پر کافی تھیسس لکھے جا چکے ہیں۔
لیکن صرف انڈیا میں اب تک کم سے کم ڈیڑھ لاکھ لوگ مر چکے ہیں اور امریکہ میں ساڑھے تین لاکھ، اور ہم جیسے بہت سے لوگ جو وائرس کی زد میں تو آئے لیکن زیادہ نہیں، مہینوں بعد بھی اس کے اثرات سے جوجھ رہے ہیں۔

انڈیا کورونا وائرس سے متاثر ہونے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اس لیے ٹیکہ نہ لگوانے کا فیصلہ کرنے سے پہلے کسی ایسے شخص سے ضرور بات کر لیجیے گا جس کی کورونا وائرس سے ملاقات ہو چکی ہو۔
ٹیکے لگیں گے اور بی جے پی والے اس سے سیاسی فائدھ اٹھائیں گے یہ تو طے ہے، لیکن اگر آپ ٹیکہ لگوانے سے پہلے حکومت کے بدلنے کا انتظار کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کا فیصلہ ہے۔
اکھیلیش یادو نے کہا ہے کہ اتر پردیش میں ان کی حکومت بنے گی تو سب کو ٹیکہ مفت لگایا جائے گا۔ موجودہ سیاسی منظرنامے میں اکھیلیش کا انتظار جلدی ختم ہونے والا نہیں ہے۔
اور ہاں، جیسا ایک معروف صحافی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ان سیاست دانوں کی بات پر بھروسہ مت کیجیے جو کہتے ہیں کہ وہ ٹیکہ نہیں لگوائیں گے۔ وہ اپنا جگاڑ کرکے ماڈرنا یا فائزر کا ٹیکہ لگوا لیں گے۔‘
تو بس پیغام یہ ہی ہے کہ جو بھی فیصلہ کریں سوچھ سمجھ کر کریں، آپ کے فیصلے سے صرف آپ ہی کی نہیں ان تمام لوگوں کی صحت متاثر ہو سکتی ہے جو آپ کے ارد گرد ہوتے ہیں۔
جہاں تک ہمارا سوال ہے، ہم نے فیصلہ کر لیا ہے۔ آکسفرڈ والا ٹیکہ لگے کا، یا فائزر اور ماڈرنا جیسی کسی ایسی کمپنی کا جسے عمل پورا کرنے کے بعد منظوری دی گئی ہو، تو فوراً لگوا لیں گے، بھارت بائیو ٹیک کی پیش کش ہوئی تو فی الحال انتظار کریں گے۔

انڈیا میں کورونا وائرس کے باعث لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

کمپنی کا جاری کردہ ڈیٹا دیکھیں گے، اس کے بارے میں غیر جانبدار اور آزاد ماہرین کی رائے پڑھیں گے اور پھر وہ فیصلہ کریں گے جو ہمارے حق میں ہوگا۔
اور کسی کی نہیں سنیں گے۔ اگر مناسب سمجھیں اور آپ کے لیے ممکن ہو تو آپ بھی ایسا ہی کیجیے گا۔
زندگی آپ کی ہے، فیصلہ بھی آپ کا ہی ہونا چاہیے۔

شیئر: