ٹوئٹر نے امریکہ میں چین کے سفارتخانے کی طرف سے کی جانے والی ایک پوسٹ ہٹا دی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ’اویغور خواتین کو شدت پسندی سے بچایا گیا ہے اور وہ اب بچے پیدا کرنے کی مشینیں نہیں رہیں۔‘
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق اس پوسٹ کے ساتھ ایک مضمون بھی تھا جس میں سینکیانگ میں زبردستی نس بندی کے الزامات کی تردید کی گئی تھی۔
ٹوئٹر نے کہا ہے کہ اس پوسٹ سے ’رولز کی خلاف ورزی‘ ہوئی ہے لیکن اس حوالے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
مزید پڑھیں
-
اویغور مسلمانوں کے’حقوق کی پامالی‘،چینی حکام پر پابندیاںNode ID: 491196
-
چین کی مساجد مسمار کرنے کی تردیدNode ID: 507521
پوسٹ میں چینی حکومت کے ترجمان سمجھے جانے والے اخبار چائنہ ڈیلی کا مضمون بھی پوسٹ کیا گیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ’تحقیق بتاتی ہے شدت پسندی کو ختم کرنے کے عمل میں سینکیانگ میں اویغور خواتین کی ذہن کو بدلا گیا، جنسی برابری اور انہیں بچے پیدا کرنے والی مشینیں بننے سے بچایا گیا۔ وہ اب زیادہ پر اعتماد اور آزاد ہیں۔‘
اس مضمون میں کہا گیا تھا کہ ریجن میں بچوں کی پیدائش میں کمی اور آبادی میں اضافے کو کم کرنے کی وجہ مذہبی انتہا پسندی پر قابو پانا ہے۔
’مغربی سکالرز اور سیاستدان کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ خواتین کی جبری نس بندی کی جارہی لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔‘
امریکہ میں چینی ایمبیسی نے پوسٹ ڈیلیٹ ہونے کے بعد اسے دوبارہ مختلف انداز سے پوسٹ کیا۔
Twitter deleted the tweet by the Chinese embassy in the US that boasted of their regime’s genocide and trauma-inducing program on Uyghur women that included forced abortions, sterilizations, and IUDs. pic.twitter.com/eKsBtrmAa6
— Amro Ali (@_amroali) January 9, 2021