کبھی چائے پیالے میں پینے کا رواج تھا پھر اس کی جگہ کپ اور مگ مقبول ہوگئے (فوٹو:ان سپلیش)
دو کی بجائے چائے بنائی ہے ایک کپ
افسوس آج تو بھی فراموش ہو گیا
شعر کیا ہے شاعر کے بُھلکڑ پن کا اظہار اور شرافت کا اشتہار ہے کہ محبوب کے فراغ میں ’دختر رز‘ کو منہ نہیں لگاتا، چائے سے جی بہلاتا ہے۔
چائے میں چاہت کی چاشنی نہ ہوتو چینی بھی پھیکی پڑجاتی ہے۔ چینی سے یاد آیا کہ چائے کا اصل وطن چین ہے جہاں اسے بالکل اہل پنجاب کے مافک چا (茶/Chá) کہتے ہیں۔
یہی ’چا‘ اردو اور ہندی میں ’چائے‘ اور فارسی میں ’چای‘ ہے۔ یہ لفظ سرزمین عرب پہنچا تو ’چ‘ کے ’ش‘ سے بدلنے پر ’شای‘ ہوگیا۔ یہ تبدیلی ایسی ہی جیسے انگریزی کا ’چکن‘ عربی میں ’شکن‘ ہے۔
چینی زبان ہی میں لفظ ’چا‘ کا ایک تلفظ ’تے‘ بھی ہے۔ یہی ’تے‘ انگریزی میں tea، فرانسیسی میں thé اور جرمن زبان میں Tee کی صورت میں رائج ہے۔
کبھی چائے پیالے میں پینے کا رواج تھا پھر اس کی جگہ کپ اور مگ مقبول ہوگئے۔ پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ پیالے کا تعلق پینے پلانے سے ہے۔ انور شعور کا مشہور شعر ہے:
گنا کرو نہ پیالے ہمیں پلاتے وقت
ظروف ظرف کے پیمانے تھوڑی ہوتے ہیں
سنسکرت میں پیالے کو ’کاسا‘ بھی کہتے ہیں، ہندی اور اردو میں لفظ ’کاسا‘ نے خاص توجہ نہیں پائی یوں بات چند ایک کہاوتوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ تاہم یہی ’کاسا‘ معمولی فرق کے ساتھ فارسی میں ’کاسہ‘ ہے اور مختلف تراکیب کا حُسن بڑھاتا ہے۔ مثلاً آدمی رذیل ہو تو سیاہ کاسہ ، بخیل ہو تو کم کاسہ، پُرخور ہو تو کاسہ پرداز، چاپلوس ہو تو کاسہ لیس اور غریب و مسکین ہوتو کاسۂ سرنگوں۔ پھر کنایۃً آسمان کو ’کاسہ پشت‘ کہتے ہیں کہ آسمان اُلٹے پیالے جیسے لگتا ہے اور اسی لیے گنبد نیلو فری کہلاتا ہے۔
’کاسہ پشت‘ سے یاد آیا کہ اردو میں جسے ’کُبڑا‘ کہتے ہیں وہ فارسی میں ’کوزہ پشت‘ ہے یعنی ایسی کمر والا جیسا اُلٹا ہوا ’کوزہ‘۔
فارسی کا ’کاسہ‘ سرزمین عرب پہنچ کر’کاس‘ ہوا، یوں ’کاس الکرام‘ کی مشہور ترکیب پیدا ہوئی۔ کاس الکرام کے لفظی معنی بابرکت اور فیض رساں پیالہ ہے۔ اس ’کاس الکرام‘ کو اقبال کی مشہور و مقبول نظم ’مسجد قرطبہ‘ میں ملاحظہ کریں:
عشق کی مستی سے ہے پیکر گِل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام
عربی میں پیالے کو ’کوب‘ بھی کہتے ہیں، اس کی جمع ’اکواب‘ ہے۔ عربی کے ’کوب‘ پر غور کریں تو اس میں آپ کو انگریزی ’کپ‘ صاف دکھائی دے گا۔
جسے ہم انگریزی میں ورلڈ کپ (world cup) کہتے ہیں وہ عربی میں ’کاس العالم‘ کہلاتا ہے۔
عربی کا ’عَالم‘ اردو میں بھی رائج ہے مگر عام بول چال میں عربی کا ایک اور لفظ ’دنیا‘ زیادہ برتا جاتا ہے۔ لفظ دنیا کا تعلق ’دَنِئُ‘ سے ہے جس کے معنی میں رذیل، کمینہ اور کم ظرف شامل ہیں۔ پھر اسی نسبت سے بد باطن اور اوچھے شخص کو بھی ’دَنِئ‘ کہتے ہیں۔
لفظ دَنِئ کے تعلق سے ’ادنیٰ‘ پرغور کریں تو منکشف ہو گا کہ آخرت کی لازوال و اعلیٰ نعمتوں کے مقابلے میں اس جہانَ فانی کو ’دنیا‘ کیوں کہا گیا ہے۔ اب دنیا کے تعلق سے سیماب اکبرآبادی کا ایک پُر مغز شعر ملاحظہ کریں:
دنیا ہے خواب، حاصل دنیا خیال ہے
انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں
’خیال‘ سے متعلق ہم پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ اس کا تعلق ’خیل‘ سے ہے اور ’خیل‘ عربی میں گھوڑے کو کہتے ہیں، ’خیل‘ گھوڑے کا ’وصفی‘ نام ہے۔ دراصل گھوڑے کی ایک خاص چال عربی میں ’خیالہ‘ کہلاتی ہے۔ اس نسبت سے یہ چال چلنے والا ’خیل‘ ہوا اور اس ’خیل‘ کی دیکھ ریکھ کرنے کا عمل ’خیال‘ کہلایا۔ ’خیال‘ کے تعلق سے ’خالہ‘ پر غور کریں جو ماں کے بعد بچوں کی سب سے زیادہ دیکھ بھال کرنے والی ہوتی ہے۔
اب لفظ ’ماں‘ پر غور کریں،۔ حیرت انگیز طور پر دنیا کے مختلف خطوں میں بولی جانے والی زبانوں میں ’ماں‘ کے لیے مستعمل الفاظ میں ’میم‘ بنیادی لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً سنسکرت میں ’ماتر‘، اردو ہندی میں ’ماں، اماں اور امی‘، پشتو میں ’مور‘، عربی میں ’اُم‘ (جمع: اُمہات) اور ’أمي‘، فارسی میں مادر، لاطینی میں ماتر (mater)، یونانی میں میتیرا (μητέρα) ،انگریزی میں مدر(mother)، ممی اور موم ، فرانسیسی میں میخ (mère)، جرمن میں موٹا (Mutter) اور چائنیز میں مُوچَن (母亲 / Mǔqīn) وغیرہ۔
تعجب نہیں اگر کسی کو چائنیز کے ’مُوچَن‘ میں عربی کا ’مُحسن‘ دکھائی کہ ماں بھی اپنی غیر مشروط محبت کے سبب محسن کا درجہ رکھتی ہے۔
’کھوار‘ پاکستان کے شمالی علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ زبان چترال سے متعلق ہے اس نسبت سے اسے قشقاری اور چترالی بھی کہا جاتا ہے۔
’کھوار‘ زبان میں ’ماں‘ کو ’نان‘ کہتے ہیں۔ اس تعلق سے لفظ ’نانا‘ اور’نانی‘ پر غور کریں تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان رشتوں کو یہ نام ’نان‘ ہی کی نسبت سے ملا ہے۔
ماں کے لیے لفظ ’نان‘ اس گروہ کی دیگر زبانوں میں نہیں پایا جاتا، تاہم ’نانا اور نانی‘ کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ ان زبانوں میں ’نان‘ بھی موجود تھا جو معدوم ہوگیا۔ پھر اس سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ سنسکرت میں ’ماں‘ کے لیے بہت سے الفاظ میں سے ایک نان (नना) بھی ہے، ’کھوار‘ میں ’نان‘ کا لفظ ’سنسکرت‘ ہی کی راہ سے آیا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ’نان‘ سے نانا اور نانی ہے تو پھر ’داد‘ سے دادا اور دادی ہونا چاہیے۔
آپ کا ایسا کہنا بالکل درست ہے۔ وہ یوں کہ سنسکرت ہی میں والد کے لیے ایک لفظ ’تات‘ (तात) بھی ہے، جو ’داد‘ کی اصل ہے۔ اسی ’داد‘ کی نسبت سے لفظ دادا اور دادی ہے۔ تاہم ’نان‘ ہی کی طرح ’داد‘ کا لفظ بھی ہندی اور اردو میں کہیں گم ہوگیا اور اپنے نسبتی رشتے چھوڑ گئے۔
فارسی میں والد کو ’پدر‘ کہتے ہیں، یہی پدر صوتی تبدیلی کے بعد انگریزی میں فادر (father) اور ہسپانوی میں پادری (padre) ہے۔ فارسی ہی میں والد کو ’باب‘ بھی کہتے ہیں، اسی سے ’بابا‘ ہے جو انگریزی میں ’پاپا‘ ہوگیا۔ دوسری طرف یہی ’باب‘ اردو اور ہندی میں ’باپ‘، باپو اور بابو کی صورتوں میں رائج ہے۔
عربی میں باپ کو ’ب‘ پر تشدید کے بغیر ’ابو‘ اور ’ابی‘ کہتے ہیں، ان الفاظ کی باز گشت اردو میں ’ابّو‘ اور ’ابا‘ کی صورت میں سنی جاسکتی ہے۔ اب ’ماں باپ‘ کی رعایت سے منور رانا کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں: