Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نام میں کیا رکھا ہے؟: ’بسنت کا ہے زمانے کو انتظار ابھی‘

’سنگھ‘ سکھ مت کے ہرمرد پیروکار کے نام کا لازمی جُز ہوتا ہے (فوٹو:ٹوئٹر)
دیکھنا یہ ہے کہ وہ دل میں مکیں ہے کہ نہیں 
چاہے جس نام سے ہو نام میں کیا رکھا ہے 
شعرالٰہ الہ باد کے’آنند نرائن ملا‘ کا ہے جو زبان دان بھی تھے اور قانون دان بھی، یوں انہیں ’نام‘ کی قانونی اہمیت سے انکار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بیشتر صورتوں میں’نام‘شخصیت کا آئینہ اورصفت کا ترجمان ہوتا ہے۔’نام‘ کا اثر شخصیت میں ہو تو اسے عربی کی رعایت سے اردو میں ’اسم بمسمیٰ‘ کہتے ہیں، جس کا رواں ترجمہ ’جیسا نام ویسا کام‘ ہے۔ 
اگر شخصیت نام کے برخلاف ہو تو ایسا شخص اردو محاورے میں ’آنکھ کا اندھا نام نین سکھ‘ کہلاتا ہے۔ جب کہ فارسی میں اسے’بَرعکس نِہند نامِ زَنگی کافور‘ پکارتے ہیں۔ آسان لفظوں میں کہیں تو ’کالے کا نام گورا‘۔ 
فلسفیانہ گفتگو تک تو یہ بات درست ہے کہ ’گلاب کو کسی بھی نام سے پکارو وہ ’گلاب‘ ہی رہے گا‘، مگر حقیقت اس سے برخلاف ہے۔ اگر شاعر ’گلاب کو گوبھی‘ اور’دل کو پھپھڑا‘ باندھنے لگیں یا محبوب کی’جوہڑ سی آنکھوں‘ میں ڈوب مرنے کے آرزو مند ہوں تو’عشق‘ سے اعتبار اٹھ جائے۔ 
بہت سے حیوانات، نباتات و جمادات کے نام اُن کے وصف یا طرزعمل کا پتا دیتے ہیں۔ لفظ ’پھول‘ پرغورکریں، یہ ’پُھولنا‘ سے ہے۔ غنچہ ’پھولتا‘ ہے تو’پھول‘ کہلاتا ہے۔ ‘سرسوں کا پھولنا‘ عام محاورہ ہے۔’شریف کنجاہی‘ کا شعرہے: 
ابھی امید کی سرسوں کہیں نہ پھولی 
بسنت کا ہے زمانے کو انتظار ابھی 
سرسوں ہی کی طرح ایک پیلے رنگ کا پھول ’گیندا‘ کہلاتا ہے۔ یہ ’گیندا‘ لفظ ’گیند‘ سے کیا نسبت رکھتا ہے اس کا انداز ان دونوں کے ’گول‘ ہونے سے کرسکتے ہیں۔ پھراس’گولائی‘ ہی کی رعایت سے ایک طرح کا گول تکیہ ’گینڈا‘ کہلاتا ہے۔ ’گینڈا‘ کی تعریف میں ایک سینگا جانور’گینڈا‘ شامل ہے یا نہیں اس کا فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں۔  
ہرن کی ایک قسم ’چیتل‘ کہلاتی ہے، جسے بظاہر’چیتا‘ سے کوئی نسبت نہیں کہ ایک چرندہ ہے دوسرا درندہ۔ ایک سراپا ناز ہے اور دوسرا فقط غضب ناک۔ تاہم ان کے ناموں پر غور کریں تو ان میں’چِیت‘ کا لفظ مشترک نظر آئے گا۔ جبکہ ’چِیت‘ اژدھے کی ایک قسم کو بھی کہا جاتاہے۔ 
چیتل، چیتا اور چِیت کی اصل ہندی لفظ ’چتّی‘ ہے، جس کے معنی دھبّا اور نشان ہیں۔ چوں کہ ان جانوروں کی کھال’چتّی دار‘ ہوتی ہے اس لیے انہیں ’چیتل، چیتا اورچِیت‘ کہا گیا۔ اس کے علاوہ ایسا گھوڑا جس کے جسم پر سفید داغ ہوں،’چِتّی مَنگل‘ کہلاتا ہے۔ 

اب گھوڑے سے اتریں اور ’کوہ ہمالیہ‘ پرچڑھ جائیں۔ ’ہِمالیہ‘ کی اصل ’ہِمالہ‘ ہے۔ ’بانگ درا‘ کی پہلی نظم کا عنوان ہی ’ہِمالہ‘ ہے جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں 
چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں 
سنسکرت میں ’ہِم یا ہیم‘ برف اور’اَلہ‘، گھر کو کہتے ہیں، یوں ’ہمالہ‘ کے معنی ہوئے ’برف کا گھر‘۔ اس سلسلۂ کوہ کو یہ نام اس کی چوٹیوں پرسال بھر موجود رہنے والی برف اوراس میں پاؤں پسارے عظیم گلیشیئرز کی وجہ سے دیا گیا۔ 
اب ’کوہِ ہندو کُش‘ کے نام پر غورکریں کہ جس کےمعنی ’ہندوؤں کو مارنے والا‘ ہیں۔ نام کی وجہ اس سلسلہ کوہ کے دامن بسنے والی وہ اقوام تھیں جو مختلف وقتوں میں ہندوستان پرحملہ آور ہوتی رہیں، یوں اس پہاڑی سلسلہ کا نام ہی ’ہندوکُش‘ پڑ گیا۔ 
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ حرف ’ر‘ اکثر صورتوں میں ’ل‘ سے بدل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بادل کو بادر، باولا (دیوانہ) کوباورا اور باولی (زینے دار کنواں) کو باوری بھی کہتے ہیں۔ اسی اصول کے تحت ’کالا‘(سیاہ) کا لفظ بدل کر’کارا‘ ہوا اور ترکی زبان میں ’قرا‘ پکارا گیا۔ یہی’ قرا‘مشہورسلسلہ کوہ ’قراقرام‘ کے نام کا جُزاول ہے،اور ’قراقرم‘ کے معنی ہیں’سیاہ ریت یا روڑی‘۔ 
سلسلہ ہمالیہ اور قراقرم کے درمیان سے گزرنے والا دریائے سندھ تبت میں جس مقام سے پھوٹتا ہے وہاں اس دریا کو ’سِنگی کھمبن‘ کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے ’شیردریا‘۔ جب یہ دریا شمال سے نیچے کی طرف خیبرپختونخواہ میں آتا ہے تو وہاں سے ’اباسین‘ کہاجاتا ہے جس کے معنی ’دریاؤں کا باپ‘ ہیں۔ چوں کہ اس خطے میں یہ سب سے بڑا دریا ہے اس لیے یہ نام اس پر پھبتا بھی ہے۔ خود آریاؤں کا سامنا جب اس دریا سے ہوا تو انہوں نے اس ’سندھو‘ پکارا جس کا مطلب ہی ’عظیم دریا‘ ہے۔  

اب واپس دریا کے پہلے نام ’سِنگی‘ پر آئیں، جس کی دوسری صورت ’سنگھ‘ ہے اور معنی ’شیر‘ ہیں۔ مشرق بعید کا مشہور ملک اسی ’سنگھ‘ سے منسوب ہونے کی وجہ سے ’سنگاپور‘ یعنی ’شیر کا شہر‘ کہلاتا ہے۔ 
’سنگھ‘ سکھ مت کے ہرمرد پیروکار کے نام کا لازمی جُز ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سکھوں کے چھٹے پیشوا ’گرو ہرگوبند‘ نے اپنے ماننے والے مردوں کو ’سنگھ‘ یعنی ’شیر‘ اور خواتین کو ’کور‘کا خطاب دیا تھا۔ ’کور‘عربی لفظ ’حُور‘ کی تبدیل شدہ صورت ہے، تاہم ’کور‘ کے معنی میں ’شہزادی‘ بھی شامل ہے۔  
اب شیر کی رعایت سے ’شمشیر‘ پرغور کریں، یہ دو لفظوں سے مرکب ہے۔ پہلا لفظ ’شم‘ ہے جو قدیم فارسی میں ’ناخن‘ کو کہتے ہیں دوسرا لفظ ’شیر‘ ہے، یوں ’شمشیر‘ کے لفظی معنی ہوئے’شیر کا ناخن‘، جب کہ اصطلاح میں’خمیدہ تلوار‘ کو ’شمشیر‘ کہتے ہیں جو تیزی میں شیر کے ناخن کا کام دیتی ہے۔ 
اب ’ناخن‘ کے حوالے سے آخری بات اور وہ کہ ’ناخن‘ کی اصل ’ناخون‘ ہے یوں اس کے معنی ہوئے ’بنا خون والا‘۔ ناخن بڑھتے ہیں آپ کاٹتے ہیں اورخون نہیں نکلتا ۔ اب ’ناخن‘ کی رعایت سے ’پیر شیر محمد عاجز‘ کا شعر ملا حظہ کریں: 
ناخن کا رنگ سینہ خراشی سے یہ ہوا 
سرخی شفق سے آتی ہے جیسے ہلال پر

شیئر: