Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا مسلم لیگ ن خواتین کی جماعت بنتی جا رہی ہے؟

مسلم لیگ ن نے آئندہ ضمنی انتخابات کے لیے بھی خواتین کو ٹکٹ دیے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان مسلم لیگ ن ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے۔ موجودہ حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک میں ن لیگ پارٹی کی نائب صدر مریم نواز کی قیادت میں خاصی متحرک دکھائی دے رہی ہے۔
مریم نواز پارٹی کی قیادت ایسے وقت میں کر رہی ہیں جب ان کے والد اور پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف علاج کی غرض سے لندن میں مقیم ہیں، جبکہ پارٹی کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اس وقت جیل میں ہیں۔  
جب مریم نواز مسلم لیگ ن کی قیادت کر رہی ہیں اور اپوزیشن کے سب سے بڑے اتحاد میں اپنی پارٹی کی نمائندگی بھی کرتی ہیں تو ایسے وقت میں پارٹی کی مرکزی ترجمان کے عہدے پر مریم اورنگزیب موجود ہیں جبکہ پنجاب کی سطح پر پارٹی کی ترجمانی عظمیٰ بخاری کر رہی ہیں۔
مسلم لیگ ن ماضی میں دائیں بازو کی سیاست کرنے والی جماعت رہی ہے تاہم حالیہ چند سالوں سے اس کو سینٹر کی پارٹی کہا جا رہا ہے۔
حال ہی میں مسلم لیگ ن نے آنے والے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 75 پر خاتون امیدوار نوشین افتخار جبکہ صوبائی اسمبلی پی پی 51 کی سیٹ پر خاتون امیدوار مسز طلعت منظور کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا ہے۔  
پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کے ساتھ ہی ن لیگ پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ نے بیان جاری کیا کہ ’دونوں ٹکٹس قائد مسلم لیگ ن نواز شریف اور صدر ن لیگ شہباز شریف کی مشاورت سے جاری کیے گئے ہیں، وہ تمام افراد جنہوں نے ان سیٹس پر اس امید سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ان کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنے کاغذات واپس لیں اور جن خواتین کے نام پارٹی ٹکٹس جاری کیے ہیں ان کی غیرمشروط حمایت کریں۔‘ 

کلثوم نواز نے بھی نواز شریف کی رہائی کی تحریک کامیابی سے چلائی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

صرف یہی نہیں اس وقت پارٹی کی ریسرچ ونگ کی سربراہی بھی ایک خاتون سائرہ افتخار کر رہی ہیں جو کہ ماضی میں صوبائی رکن اسمبلی بھی رہی ہیں۔
نوے کی دہائی میں مسلم لیگ ن کے قیام سے اب تک ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ قیادت سے ترجمانی تک خواتین کو ہی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔  
ایسے میں کئی سوال سامنے آتے ہیں کہ کیا یہ ایک عارضی بندوبست ہے جس میں محض کچھ وقت کے لیے حادثاتی طور پر پارٹی کی لیڈر شپ خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ یا مسلم لیگ ن نے جیسے دائیں بازو کی جماعت سے سینٹر کی جماعت بننے کا ارتقائی سفر طے کیا ہے بالکل ایسے ہی اب یہ جماعت سیاست میں صنفی امتیاز کو بھی ختم کرنے کا سبب بنے گی؟
کیا یہ ایک حکمت عملی ہے یا مجبوری؟ 
مسلم لیگ ن کی رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی حنا پرویز بٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جیسے جیسے سیاست آگے بڑھ رہی ہے مسلم لیگ ن نے بھی ارتقائی سفر طے کیا ہے۔
’میں خود بھی 2013 سے اس جماعت کے ساتھ ہوں اور میں نے پارٹی کے اندر خواتین کے لیے جو عزت اور ماحول دیکھا ہے اس سے میں کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس وقت عورتوں کے لیے سب سے محفوظ جماعت مسلم لیگ ن ہے۔‘
حنا پرویز بٹ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہہ رہی کہ باقی جماعتیں عورتوں کے لیے محفوظ نہیں ہیں، میں زیادہ بہتر ماحول کی بات کر رہی ہوں۔‘ 

پارٹی کی قیادت کے علاوہ ترجمان کا عہدہ بھی خاتوں نے ہی سنبھالا ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم پاکستان میں سیاسیات کے استاد رسول بخش رئیس اس بات سے مکمل اتفاق نہیں کرتے کہ مسلم لیگ ن مستقبل میں کوئی صنفی امتیاز سے پاک جماعت بننے جا رہی ہے۔
’ابھی بھی پاکستان کی سیاسی جماعتیں موروثی سیاست کے گرداب میں ہیں، جب تک پارٹیوں کے اندر مکمل طور پر جمہوریت نہیں آتی پارٹی کا سربراہ مرد ہے یا عورت اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مریم نواز اس وقت نواز شریف کی سیاست کر رہی ہیں۔ وہ خود چونکہ ملک سے باہر ہیں اور ان کے دو بیٹے بھی باہر ہیں تو ایسے میں مریم کے سوا ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ تو میں تو اس کو ایسے ہی کہوں گا کہ یہ موقعے موقعے کی بات ہے۔ اس وقت سیاسی صورت حال ہی ایسی ہے کہ اس میں یہی ممکن ہے۔‘ 
رسول بخش رئیس کے مطابق ’جہاں تک پارٹی کے ترجمانوں کی بات ہے تو پاکستان میں سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے، اس میں ترجمان کے طور پر مرد یا عورت کی اہمیت سے زیادہ اس بات کی ہے کہ وہ آپ کا دفاع کتنے جاندار انداز میں کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیکھنے میں تو تحریک انصاف کی سیاسی جدوجہد میں سب سے زیادہ خواتین جلسوں میں نکلیں لیکن جب حکومت آئی تو ترجمانی شہباز گل کے پاس ہے۔
’پاکستان میں سیاست ایک مختلف عمل ہے اور یہاں مفادات کی اہمیت نظریات سے زیادہ ہے۔ ابھی یہ پارٹیاں نظریاتی نہیں ہیں۔‘ 

شیئر: