سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ملتان میں ہونے والے جلسے میں خطاب سے قومی افق پر ایک اور سیاسی خاتون کی رونمائی ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے مطابق بلاول بھٹو کی کورونا کے باعث 30 نومبر کو ہونے والے ملتان کے جلسے میں عدم شرکت کے بعد آصفہ بھٹو پیپلزپارٹی کی نمائندگی کے لیے ملتان آ رہی ہیں۔
پاکستان کی قومی سیاست میں خواتین کی آمد زیادہ تر حادثاتی یا مجبوری کی شکل میں ہوئی ہے تاہم ان خواتین نے نامساعد حالات میں بھی قیادت کی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کرکے اپنے ناقدین کو اکثر حیران کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں خواتین کی تحریکیںNode ID: 462966
-
خواتین صحافیوں پر جو بیتی اسے سن کر قائمہ کمیٹی سکتے میںNode ID: 499611
-
باجی گڑیا سے قومی لیڈر تکNode ID: 514036
بانی پاکستان محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کی پاکستان میں جمہوریت کے لیے وقت کے طاقتور فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے ساتھ سیاسی پنجہ آزمائی ہو یا بے نظیر بھٹو کی جانب سے اپنے والد ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کے سامنے اپنی پارٹی کی بقا کی جنگ ہو، خواتین نے اس محاذ پر اپنا کردار بخوبی نبھا کر دکھایا ہے۔ ایک اور فوجی دور حکومت میں اپنے خاوند نواز شریف کی گرفتاری کے بعد بیگم کلثوم نواز نے بھی سیاسی مزاحمت کا علم بلند کیا اور اپنے شوہر کی رہائی کی تحریک خاصی کامیابی سے چلائی۔
اب سوال یہ ہے کیا آصفہ بھٹو اپنی والدہ اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت کا حق ادا کر سکیں گی؟ اس سوال کا جواب آئندہ آنے والے چند سالوں میں سامنے آجائے گا، تاہم ملتان جلسے میں دلچسپ بات یہ ہو گی کہ دو سابق وزرائے اعظم کی بیٹیاں سٹیج سے مخاطب ہوں گی۔
کیا خواتین سیاستدان زیادہ دلیر ثابت ہوئی ہیں؟
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے لاہور میں مقیم سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ہر مشکل صورتحال میں پاکستان کی خواتین سیاستدانوں نے اپنے کردار کا لوہا منوایا ہے۔
’میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ جب سابق فوجی حکمران جنرل مشرف کے دور میں وزیراعظم نواز شریف کو گرفتار کر لیا گیا تو اس وقت ان کی جماعت کا کوئی فرد احتجاج کے لیے باہر نکلنے کو آمادہ نہیں تھا لیکن یہ بیڑہ ایک خاتون بیگم کلثوم نواز نے اٹھایا۔ اسی طرح نواز شریف جب حال ہی میں مشکلات کا شکار ہوئے تو ان کی بیٹی مریم نواز نے ان کے بیانیے کو لے کر آگے بڑھنے کی ہمت دکھائی۔‘

سلمان غنی کے مطابق جب60 کی دہائی میں محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابل الیکشن لڑنا پڑا تو اس وقت بھی کوئی سیاستدان طاقتور حکمران کا سامنا کرنے کو تیار نہ تھا۔ ’منتیں کرکے اپوزیشن فاطمہ جناح کو سامنے لے کر آئی۔ گو کہ الیکشن میں فاطمہ جناح کو شکست ہوئی مگر تمام آزاد مبصرین نے اس انتخاب کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ اسلامی تاریخ میں بھی مسلمان خواتین نے اسی طرح دلیرانہ کردار ادا کیا۔
سلمان غنی کے مطابق بلاول بھٹو کی بیماری کے باعث آصفہ بھٹو اپنے بھائی کی کمی پوری کرنے کے لیے سامنے آئی ہیں تو ان سے بھی امید ہے کہ وہ اپنی والدہ کی طرح اپنا کردار نبھائیں گی۔
قیادت کی صلاحیت کسی صنف سے منسوب نہیں: نسیم زہرہ
سینیئر صحافی نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ گو کہ پاکستانی سیاست میں خواتین سیاستدانوں کا کردار قابل تعریف ہے تاہم قیادت کی صلاحیت کو کسی صنف سے جوڑنا درست نہیں ہوگا۔
