انڈین وزیراعظم نے کہا کہ چائے کے باغوں میں کام کرنے والوں کی کڑی محنت پر حملہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ نے وہ ہندوستانی چائے پی ہے جسے بدنام کرنے کی سازش بین الاقوامی سطح پر کی جا رہی ہے تو زیادہ حیران یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، فوراً سمجھ جائیے گا کہ آپ سے گھما پھرا کر آسام یا دارجیلنگ کی چائے کے بارے میں بات کی جا رہی ہے۔
یہ راز وزیراعظم نریندر مودی نے فاش کیا ہے جسے سن کر انڈیا کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی ہوش ربا رہ گئی ہوں گی۔
مغربی بنگال اور آسام میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بین الاقوامی طاقتیں انڈیا کو بدنام کرنے کی سازش رچ رہی ہیں اور اس کے لیے وہ چائے سے جڑی انڈیا کی پہچان پر حملہ کرنے کی بات کر رہی ہیں۔‘
انڈین وزیراعظم نے کہا کہ ’چائے کے باغوں میں کام کرنے والوں کی کڑی محنت پر حملہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ پوری دنیا میں آسام کی چائے کو بدنام کر دیں گے۔ جبکہ کچھ ایسی دستاویزات بھی سامنے آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرون ملک موجود طاقتیں چائے کے ساتھ انڈینز کی وابستگی کو نشانہ بنانا چاہتی ہیں۔‘
اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں آپ کو بتاتے چلیں کہ دونوں ریاستوں میں جلدی ہی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں۔
آپ کا خیال صحیح ہے، دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر کوئی نئی بات معلوم ہو رہی ہو تو نقصان کیا ہے؟
یہ انکشاف بھی کر دیں کہ ہماری ہر صبح کا آغاز آسام کی چائے سے ہی ہوتا ہے اور یہ طاقتیں چاہے کتنی بھی کوشش کر لیں، آسام کی چائے کو چاہے کتنا بھی بدنام کر لیں، اس کا دامن چاہے کتنا ہی داغدار کیوں نہ ثابت کر دیں، آسام کی چائے کے شوقین ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو آسانی سے اپنی وابستگیاں بدلتے ہیں۔ اس لیے یہ چائے تو ہم بدستور پیتے رہیں گے۔
دراصل اس پوری کہانی کا پس منظر کسانوں کی تحریک سے جڑا ہوا ہے۔ گذشتہ ہفتے مشہور زمانہ گلوکارہ ریحنہ اور ماحولیات کے لیے کام کرنے والی نوجوان کارکن گریٹا تھنبرگ نے کسانوں کی تحریک کی حمایت میں ٹویٹ کیے تھے۔
گریٹا نے ایک ’ٹول کٹ‘ (ایک طرح کی حکمت عملی) بھی شیئر کی تھی جس میں بظاہر یہ بات بھی شامل تھی کہ انڈیا کے یوگا اور چائے سے متعلق امیج کو نشانہ بنایا جائے۔
ریحنہ اور گریٹا کی ٹویٹس پر وزارت خارجہ نے بھی ردعمل دیا تھا، جو انتہائی غیرمعمولی بات ہے کیونکہ انڈیا میں حکومت انفرادی حیثیت میں دیے جانے والے بیانات کا اکثر جواب نہیں دیتی۔
خیر جو ہوا سو ہوا، وزیراعظم نے آسام کے ٹی گارڈنز میں کام کرنے والے مزدوروں سے پوچھا کہ ’کیا آپ ان حملہ آوروں کو قبول کرتے ہیں، کیا آپ ان سے ہمدردری کرنے والوں کو قبول کرتے ہیں؟ ایسی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دی جائیں گی، چائے کے باغوں میں کام کرنے والے ہمارے مزدور یہ جنگ ضرور جیتیں گے۔‘
مزدور بھی سوچ رہے ہوں گے آپ کہہ رہے ہیں تو ہم جنگ لڑیں گے بھی اور جیتیں گے بھی۔
آپ اتنی دور سے آئے ہیں مہمان نوازی بھی کوئی چیز ہوتی ہے لیکن یہ تو بتا دیجیے کہ یہ جنگ لڑی کہاں جانی ہے اور ہم وہاں کیسے پہنچیں؟
فی الحال یہ جنگ سوشل میڈیا پر ہی لڑی جا رہی ہے۔
ٹوئٹر پر انڈیا کے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے پوچھا کہ ’چائے کو کیسے بدنام کیا جا سکتا ہے؟ کیا چائے نامعلوم لوگوں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ قائم کرے گی؟ مجھے لگتا ہے جیسے دہلی پولیس نے دنیا کے بہت سارے ممالک کے ’نامعلوم افراد‘ کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے!‘
چدمبرم نے مقدمے کی بات شاید اس لیے کی کہ دہلی پولیس نے گریٹا تھنبرگ کی ٹویٹ کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا تھا۔ اس وقت بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا گریٹا کو گرفتار کر کے ان پر انڈیا میں مقدمہ چلایا جائے گا اور کیا انٹرپول کی مدد سے ان کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کیا جائے گا؟
اور اب ممبئی پولیس بھی ایک تفتیش شروع کرنے کی تیاری میں ہے۔ اس کے نشانے پر انڈیا کی وہ ممتاز شخصیات ہیں جنہوں نے ریحنہ اور گریٹا کی ٹویٹس کے بعد جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے تقریباً یکساں ٹویٹس کی تھیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ یہ ٹویٹس حکومت یا بی جے پی کے کہنے پر لکھی گئی تھیں اور مہاراشٹر میں شیو سینا اور کانگریس کی حکومت کو اس بات میں زیادہ مزا نہیں آیا۔
چائے کو بدنام کرنے کے لیے واقعی کوئی بین الاقوامی سازش ہے یا نہیں یا آسام اور دارجیلنگ کی چائے کے شوقین کسی کے کہنے پر چائے کا برانڈ بدل لیں یا چائے کے باغوں میں کام کرنے والے یہ جنگ جیتتے ہیں یا نہیں یہ سب بعد میں ہی پتا چلے گا لیکن بی جے پی آسام اور مغربی بنگال کے انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ جلد ہی معلوم ہو جائے گا۔
شاید اسی لیے نریندر مودی نے چائے کے باغوں میں کام کرنے والوں کوصاف صاف بتا دیا کہ وہ یہ جنگ کیسے جیت سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’جنہوں نے انڈیا کی چائے کو بدنام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور اس پر یہاں جو چپ بیٹھے ہیں، ہر کسی کو جواب دینا پڑے گا۔ ان سبھی سیاسی پارٹیوں سے ہر چائے کے باغ میں کام کرنے والا جواب مانگے گا، انڈیا کی چائے پینے والا ہر انسان جواب مانگے گا۔‘
باقی سیاسی پارٹیوں کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ چائے کی حمایت میں کمر کس کر میدان میں اتر آئیں۔ چائے کی نیک نامی میں ہی ان کی بقا ہے ورنہ ووٹروں کو تو آپ جانتے ہی ہیں، وہ یہ ضرور پوچھیں گے کہ جب چائے کو سرعام بدنام کیا جارہا تھا تو آپ کہاں تھے؟