انتخابی مہم ہو، حکومت سازی کا مرحلہ ہو یا چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک، حکمران جماعت تحریک انصاف کو سیاسی بھنور سے نکالنے کے لیے ہمیشہ جہانگیر ترین کی ہی کشتی میسر آئی ہے۔
سنہ 2013 کے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم ہو، خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ ہو یا 126 دن کا طویل دھرنا ہو، جہانگیر خان ترین تحریک انصاف کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئے اور تحریک انصاف کے حلقوں میں انہیں ’کنگ میکر‘ کہا جانے لگا۔
یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا بلکہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل ’الیکٹ ایبلز ‘ کو تحریک انصاف کی کشتی میں سوار کروانے سے لے کر انتخابات کے بعد پنجاب میں حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ تک جہانگیر ترین کا جہاز ہمہ وقت تیار رہتا۔
مزید پڑھیں
-
جہانگیر ترین کی 'چھٹی'،کابینہ میں تبدیلیاںNode ID: 469901
-
’آپ کپتان کا حوصلہ ہیں، اُن کا بھرم ہیں‘Node ID: 499011
-
ترین، شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہNode ID: 517961
تاہم جہانگیر ترین اور تحریک انصاف کی حکومت میں چینی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دوریوں کے بعد سینیٹ انتخابات پہلا موقعہ ہے جب تحریک انصاف کو اپنے ترپ کے پتے کی خدمات کے بغیر انتخابی میدان میں اترنا پڑ رہا ہے۔
تحریک انصاف کے کئی ارکان آج بھی اس بات کو تسلیم کرتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے میں جہانگیر ترین کا کلیدی کردار رہا ہے۔
انتخابی سیاست میں تحریک انصاف کے ایک اور اہم رکن اسد عمر نے جہانگیر ترین کے بغیر سینیٹ انتخابات کے لیے انتخابی مہم کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جہانگیر ترین یقینی طور ایک اہم رکن کی حیثیت رکھتے تھے اور پارٹی کے لیے ان کی خدمات نمایاں رہی ہیں۔‘
جہانگیر ترین کی انتخابی جوڑ توڑ کی سیاست کا تجربے کی کمی کے حوالے سے وفاقی وزیر اسد عمر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پارٹی میں وسیع تجربہ رکھنے والے کئی ارکان موجود ہیں، اور سینیٹ انتخابات کے لیے جن لوگوں کو ٹاسک سونپا گیا ہے وہ یہ ذمہ داری نبھانے کی قابلیت بھی رکھتے ہیں۔‘

’کنگ میکر‘ جہانگیر ترین کا جہاز اور حکومت سازی کا مرحلہ
سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد پنجاب اور وفاق میں حکومت سازی کے مرحلے کا آغاز ہوا تو جہانگیر ترین کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے آزاد منتخب ہونے والے ارکان کو جہاز میں بٹھا کر بنی گالہ لانے کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
بنی گالہ میں عمران خان تحریک انصاف کا روایتی مفلر پہنا کر آزاد منتخب ہونے والے ارکان کو پارٹی میں خیر مقدم کرتے نظر آئے اور یوں تحریک انصاف کے ’کنگ میکر‘ نے پنجاب میں بھی اقتدار کا ہمہ پی ٹی آئی کے سر سجا دیا۔
حکومت سازی کے بعد تحریک انصاف کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا تو جہانگیر ترین ایک بار پھر متحرک ہوئے اور وفاق میں اتحادیوں کو منانے کے بعد اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کا سہرا بھی ان ہی کے سر سجا۔

’جہانگیر ترین کی عدم موجودگی میں عمران خان کو حفیظ شیخ کے لیے خود مہم چلانا پڑ رہی ہے‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی تحریک انصاف کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست کے مواقع آئے تو پارٹی کی جانب سے سب سے آگے جہانگیر ترین ہی ہوتے تھے، لیکن اب ان کی غیر موجودگی میں پہلی بار پی ٹی آئی انتخابی سیاست کے میدان میں اتر رہی ہے۔
’جب جوڑ تور کی سیاست کرنا ہو، لوگوں سے مذاکرات کرنا ہوں تو جہانگیر ترین سب سے آگے نظر آتے ہیں اور وہ اس چیز میں مہارت رکھتے ہیں، ان کی غیر موجودگی کے باعث ہی عمران خان کو حفیظ شیخ کی انتخابی مہم خود چلانا پڑ رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کے علاوہ پرویز خٹک ایسے سیاست دان ہیں جنہیں جوڑ توڑ میں مہارت حاصل ہے اور وہ بڑے کھلاڑی ہیں لیکن وہ بھی اس بار کھل کر سامنے نہیں آرہے۔

’جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کے علاوہ پی ٹی آئی میں کوئی اور مجھے نظر نہیں آتا جو کہ ایسی محارت رکھتا ہو لیکن پرویز خٹک بھی اس بار غیر متحرک نظر آرہے ہیں۔‘
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین کی عدم موجودگی کے باعث سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
’پارٹی میں ان کی غیر موجودگی محسوس تو کی جائے گی کیونکہ وہ جب بھی لاہور یا اسلام آباد جاتے ہیں تو ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور جنوبی پنجاب کے ارکان کے ساتھ بھی ان کے روابط موجود ہیں‘
ان کے مطابق ’اگر جہانگیر ترین نے پس پردہ رہ کر بھی حکومت کا ساتھ نہ دیا تو شاید پنجاب میں تحریک انصاف کو نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔‘
تاہم سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی کے خیال میں سینیٹ انتخابات کے لیے جہانگیر ترین پنجاب کے بجائے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کسی حد تک اپنا کردار ادا کر سکتے تھے۔
