Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا جہانگیر ترین کی سیاست ختم یا وہ فائٹ بیک کریں گے؟

جہانگیر ترین کے اپنے دعوے کے مطابق 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے لیے ٹکٹوں کی تقیسم ان کی مشاورت سے ہوئی۔ فائل فوٹو
چینی بحران پر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ نے پی ٹی آئی کے سینئر ترین رہنما جہانگیر ترین کو مرکزی  ذمہ داروں میں شامل کر دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی اور موجودہ حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے  جہانگیر ترین کچھ عرصہ قبل تک عمران خان کے بعد پارٹی کے اہم ترین رہنما سمجھے جاتے رہے ہیں مگر حالیہ مہینوں میں دونوں رہنماؤں کے تعلقات میں سردمہری آگئی تھی اور اب وزیراعظم کے حکم پر فرانزک رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد دونوں کے درمیان فاصلے ناقابل یقین حد تک بڑھ چکے ہیں۔
کیا جہانگیر ترین کے راستے اب پی ٹی آئی سے جدا ہو جائیں گے یا وہ پی ٹی آئی کے اندر ہی بغاوت کو فروغ دیں گے؟ کیا وہ سیاست یا کاروبار جاری رکھ سکیں گے یا پھر گوشہ نشینی اختیار کریں گے؟ کیا انہیں جیل جانا پڑے گا؟  یہ وہ سوالات ہیں جو ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد ہر زبان پر ہیں۔ اردو نیوز نے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

جہانگیر ترین صدمے میں ہیں

جمعرات کو سامنے آنے والی فرانزک رپورٹ کے بعد ٹوئٹر پر اپنے فوری ردعمل میں جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ جھوٹے الزامات پر انہیں دھچکا لگا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ شفاف طریقے سے کاروبار کیا ہے۔ وہ دو بکس نہیں رکھتے کاشتکاروں کو پوری قیمت دیتے ہیں اور تمام ٹیکسز ادا کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر الزام کا جواب دیں گے اور بری ہو جائیں گے۔
اردو نیوز نے ان سے موقف حاصل کرنے کی متعدد بار کوشش کی مگر ان سے رابطہ نہیں ہو سکا تاہم کچھ دیر بعد ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں چھلانگیں لگائی گئی ہیں اور فرانزک آڈٹ کا بہانہ بنا کر ان کے خلاف چیزیں نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک کی چینی کی صنعت کے 21 فیصد کے حصہ دار ہیں مگر یہ کوئی جرم نہیں بلکہ تجارت ہے۔

جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ پتا کرانا چاہیے کہ چینی کی برآمد کا کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے اپنے خلاف الزامات کی تردید کی اور کہا کہ پتا کرانا چاہیے کہ چینی کی برآمد کا کا فیصلہ کیوں کیا گیا کیونکہ اسی فیصلے کے نتیجے میں حکومتی خزانے سے سبسڈی دی گئی۔ اگر فیصلہ نہ کیا جاتا تو سبسڈی بھی نہ دی جاتی۔ ان سے پوچھا گیا کہ یہ فیصلہ کس نے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ای سی سی نے فیصلہ کیا آپ ای سی سی کے ممبران سے پوچھیں۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ سیاست صاف شفاف کرنی چاہیے۔ مخالفین کو رگڑے لگا کر کام نہیں چلتے اور نہ لانگ ٹرم کامیابی ملتی ہے۔ جب تک ٹیم ورک نہیں ہوتا حکومت چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اپنے مستقبل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاستدان ہیں اور ہر چیز کے لیے تیار ہیں۔ اچھے دن بھی آتے ہیں اور برے دن بھی آتے ہیں۔

'ترین کی بے عزتی ہوئی ہے وہ فائٹ بیک کریں گے'

جہانگیر ترین کے مستقبل کے حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے  سنئیر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ سے جہانگیر ترین کی بے عزتی ہوئی ہے، ان کی سیاسی لائف تو پہلے ہی ختم تھی اب کاروباری زندگی بھی خطرے میں ہے۔ اس لیے وہ ضرور فائٹ بیک کریں گے کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق فی الحال شاید جہانگیر ترین کچھ عرصہ خاموش رہیں کیونکہ ابھی وہ طوفان کی زد میں ہیں فوری طور پر ہاتھ پاؤں ماریں گے تو اور پھنسیں گے۔
تاہم طوفان کے بعد ضرور اپنی کوشش کریں گے۔
ترین کے لیے سیاسی آپشنز کے سوال پر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ 'ان کے گجرات کے چوہدریوں (چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی) سے اب بھی اچھے تعلقات ہیں وہ ان کے ساتھ مل کر کوئی سیاسی راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔ یا پھر تحریک انصاف کے اندر اگر کوئی  نئی گروپ بندی ہوئی اس میں کردار ادا کریں گے۔'
یاد رہے کہ ابھی بھی جہانگیر ترین کو پارٹی کے ایک مضبوط دھڑے کی حمایت حاصل ہے اور ان کے خیر خواہوں میں وفاقی اور صوبائی وزرا بھی شامل ہیں۔

جہانگیر ترین کا موجودہ حکومت کے قیام میں اہم قردار ہے۔ فائل فوٹو

پی ٹی آئی کے دروازے جہانگیر ترین کے لیے اب بھی بند نہیں ہوئے: پارٹی ترجمان

جہانگیر ترین کے پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے اردو نیوز نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پولیٹکل کمیونیکیشن شہباز گل سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس معاملے پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کے  پی ٹی آئی  میں رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے پارٹی ترجمان بات کریں گے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات احمد جواد کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ جہانگیر ترین کی پی ٹی آئی کے ساتھ سیاست ختم ہو گئی ہے۔
 ان کا کہنا تھا کہ 'ابھی تو کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ آئی ہے یہ کوئی فیصلہ نہیں ہے۔ فیصلہ تو اس کی بنیاد پر ہونا ہے۔ تاہم اگر فیصلہ بھی ترین صاحب کے خلاف آتا ہے تو ان کے پاس عدالت کا آپشن ہے۔'
انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین 2011 میں پارٹی میں آئے تھے۔ اب نو سال کا عرصہ ہو چکا ہوا ہے۔ اس میں شک نہیں پارٹی کے لیے انکی خدمات ہیں۔ ان کو ڈس کریڈٹ کیوں کریں۔

رواں سال کے آغاز میں چینی اور آٹے کے بحران کے بعد وزیراعظم کے ساتھ ان کے تعلقات سرد ہونا شروع ہوئے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

ایک اور سوال پر پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ پارٹی کی پالیسی ہے کہ احتساب کرنا ہے تو بلا امتیاز کرنا ہے۔ اب ملک کے اداروں کا کام ہے جیسا کہ نیب اور ایف آئی اے کا کہ احتساب کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ سے جہانگیر ترین کے خلاف نا اہلی کا فیصلہ آیا تھا تو اس وقت زیادہ بڑی وجہ دستیاب تھی اگر ان کا پی ٹی آئی میں تعلق ختم ہو جاتا مگر اس کے بعد ان کا کردار ختم نہیں ہوا تھا بلکہ بڑھا تھا۔ اس لیے اب بھی ان کا کردار ختم نہیں ہوا۔ آنے والے دنوں میں چیزیں کلیئر ہوں گی۔
اس سوال پر کہ کیا جہانگیر ترین پی ٹی آئی میں اپنے دھڑے کے ذریعے بغاوت کر سکتے ہیں پارٹی ترجمان کا کہنا تھا 'میرا نہیں خیال ابھی اختلاف والی صورتحال ہے۔ ابھی سزا نہیں ہوئی۔ انکے لیے دروازے بند نہیں ہوئے۔ ابھی موقع نہیں آیا کہ جہانگیر ترین یا ان کا دھڑا پارٹی کے اندر اختلاف کریں۔'

جہانگیر ترین کا پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی سفر

 جہانگیر ترین اب تک عمران خان کے بعد پارٹی کے اہم ترین رہنما سمجھے جاتے رہے ہیں اور وہ خود کو موجودہ حکومت کے بانیوں میں بھی شمار کرتے ہیں کیونکہ 2018  کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے لیے حکومت سازی کے وقت ان کے ذاتی جہاز پرآزاد امیدواروں کو ملک بھر سے لا لا کر پارٹی میں شامل کیا جاتا تھا۔  
ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے جہانگیر ترین بنیادی طور پر ایک زمیندار اور بزنس مین تھے تاہم انہوں نے 2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ق کی طرف سے الیکشن لڑا اور وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی کابینہ میں زراعت کے ایڈوائزر کے طور پر شامل ہو گئے۔

جہانگیر ترین کا کہنا تھا کاشتکاروں کو پوری قیمت دیتے ہیں۔ فائل فوٹو

2004 میں جہانگیر ترین کو وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر صنعت و پیدوار شامل کر لیا گیا جہاں انہوں نے 2007 تک خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران ان کی شوگر ملز کا کاروبار بھی جاری رہا۔ 2008 کے انتخابات میں بھی جہانگیر ترین نے قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ فنکشنل کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔
2011 کے اختتام پر انہوں نے ساتھیوں سمیت پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور ان کا شمار پارٹی کی اہم ترین شخصیات میں ہونے لگا۔ 2013 میں چیئرمین عمران خان نے انہیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل نامزد کر دیا۔
وہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کر سکے تاہم پارٹی میں اہم حثیت برقرار رکھی اور 2015 کے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔
تاہم دسمبر 2017 میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے انہیں اپنے کاغذات نامزدگی میں اثاثے چھپانے پر آئین کی دفعہ 62 ون ایف کے تحت کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔

جہانگیر ترین کے مطابق اگر چینی کی برآمد فیصلہ نہ کیا جاتا تو سبسڈی بھی نہ دی جاتی۔ فائل فوٹو: روئٹرز

اس کے باوجود جہانگیر ترین نے پارٹی معاملات میں اہم ترین کردار ادا کیا اور ان کے اپنے دعوے کے مطابق 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے لیے ٹکٹوں کی تقیسم ان کی مشاورت سے ہوئی جس کے باعث پارٹی جیت گئی۔
تاہم فیصلہ کن اکثریت کے لیے پی ٹی آئی کو آزاد امیدواروں کی حمایت کی ضرورت تھی۔ یہاں ایک بار پھر جہانگیر ترین حرکت میں آئے اور اپنے نجی جہاز پر آزاد امیدواروں کو ملک بھر سے بنی گالہ لا لا کر پارٹی میں شامل کراتے گئے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی حتمی اکثریت حاصل کر کے مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں برسراقتدار آ گئی۔
سپریم کورٹ سے نااہلی کے باوجود جہانگیر ترین کو وزیراعظم کی قربت حاصل رہی اور وہ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے اور زرعی ٹاسک فورس کے سربراہ بھی بن گئے۔ وزیراعظم آفس میں اثر و رسوخ کے باعث انہیں 'ڈپٹی پرائم منسٹر' کا لقب بھی دیا جاتا رہا۔
زراعت کا ماہر ہونے کی وجہ سے وزیراعظم نے انہیں زراعت کے شعبے میں اصلاحات اور معاملات کو اپنی مرضی سے چلانے کی اجازت دی۔ انہیں نہ صرف وفاق بلکہ پنجاب میں بھی خاصا اثر و رسوخ حاصل رہا۔
تاہم رواں سال کے آغاز میں چینی اور آٹے کے بحران کے بعد وزیراعظم کے ساتھ ان کے تعلقات سرد ہونا شروع ہوئے اور ملاقاتیں خاصی محدود ہو گئیں۔
چینی اور آٹے کے بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ میں ان کا نام آنے کے بعد بالآخر اپریل میں انہیں زرعی ٹاسک فورس سے علیحدہ کر دیا گیا جس کے بعد انہوں نے بھی کھل کر وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے اختلافات کا ذکر کیا اور یہ تک کہا کہ عمران خان سے ان کے پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے۔

شیئر: