Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان: چھ کوئلہ کان کن حادثے میں ہلاک، ایک ماہ میں 15 ہلاکتیں

بلوچستان میں ایک ماہ کے دوران 15 کان کن ہلاک ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
بلوچستان میں جمعرات کو کوئلے کی کان میں پیش آنے والے حادثے کے بعد پھنسے ہوئے چھ کان کنوں کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔
بلوچستان میں صرف ایک ماہ کے دوران مختلف حادثات میں ہلاک ہونے والے کان کنوں کی تعداد پندرہ ہو گئی ہے۔ 
حکام کے مطابق صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 55 کلومیٹر دور مارواڑ میں کرد مائننگ کارپوریشن کی ایک کوئلے کی کان میں گزشتہ روز گیس بھر جانے سے کان کن ہلاک ہو گئے تھے۔
محکمہ معدنیات کوئٹہ کے انسپکٹر مائنز عبدالرشید ابڑونے اردو نیوز کو بتایا کہ کان میں کاربن مونو آکسائیڈ گیس جمع ہوگئی تھی جس سے تقریباً ایک ہزار فٹ کی گہرائی میں کام کرنے والے پانچ کان کن دم گھٹنے کے باعث بے ہوش ہوگئے اور اندر پھنس گئے تھے۔  
رشید ابڑو کے مطابق کان میں حادثہ جمعرات کی علی الصبح پیش آیا تاہم کان کنوں کی جانب سے پھنسے ہوئے ساتھیوں کو نکالنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد کوئٹہ میں مائنز انسپکٹریٹ کو کئی گھنٹے کی تاخیر سے اطلاع دی گئی۔ 
مائنز انسپکٹرنے مزید بتایا کہ ’اطلاع ملنے پر ہماری ریسکیو ٹیم نے موقع پر پہنچ کر ریسکیو آپریشن شروع کیا جو رات تقریباً تین بجے مکمل ہوا۔ صوبائی ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے ) کی ٹیم نے بھی آپریشن میں حصہ لیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ کان میں گیس کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سےامدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔پھنسے ہوئے کان کنوں کو نکالنے کےلیے اندر جانے والے ایک کان کن محمد رحیم کی بھی گیس سے دم گھٹنے کے باعث موت واقع ہو گئی۔ 
 صوبائی ڈیزاسسٹرمینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام کان کنوں کا تعلق بلوچستان کے علاقے چمن اور مسلم باغ سے تھا۔ 

بلوچستان کے سات اضلاع میں کوئلے کی 2800 سے زائد کانیں موجود ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

ہلاک ہونے والوں میں سے عبدالرحمان، سردار ولی، مدد خان، عبدالرزاق اور شفیق کا تعلق چمن سے ہے جبکہ محمد رحیم کا تعلق مسلم باغ سے تھا۔ میتیں کوئٹہ پہنچانے کے بعد ضابطے کی کارروائی کر کے آبائی علاقوں کو روانہ کردی گئیں۔
 مائنز انسپکٹر عبدالرشید ابڑو کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ کان میں ایک دوسری پرانی کان سے کریک پڑنے کی وجہ سے حادثے سے ایک رات قبل کاربن مونو آکسائیڈ گیس جمع ہونا شروع ہوگئی تھی۔
’رات کی شفٹ میں کام کرنے والے کان کن بھی حالت خراب ہونے پر جلدی نکل آئے تھے تاہم ان کے منع کرنے کے باوجود صبح کی شفٹ میں کام کرنے والے کان کن  کان کے اندر اترے۔‘  
انہوں نے بتایا کہ متاثرہ کان کو بند کر کے حادثے کی مزید تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
بلوچستان میں ایک ماہ کے دوران کوئلے کی کان میں پیش آنے والا یہ دوسرا بڑا حادثہ ہے۔ اس سے قبل 17 فروری کو ضلع ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں بھی گیس دھماکے سے چار کان کن ہلاک ہوئے تھے۔ 
محکمہ معدنیات کے مطابق ہرنائی، دکی، کوئٹہ اور کچھی سمیت بلوچستان کے سات اضلاع میں کوئلے کی 2800 سے زائد کانیں موجود ہیں جن میں تقریباً 70 ہزار کان کن کام کرتے ہیں ۔ کان کنوں میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبرپختونخوا کے اضلاع سوات، دیر اور شانگلہ سے ہے جبکہ ایک بڑی تعداد افغان کان کنوں کی بھی ہے۔

مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق حکومت کی لا پرواہی کے باعث کان میں حادثات پیش آ رہے ہیں۔ فائل فوٹو اے ایف پی

کان کنوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق کوئلے کی کانوں میں حفاظتی انتظامات اور سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث حادثات معمول بن چکے ہیں۔ صرف گزشتہ ایک ماہ کے دوران ہرنائی، دکی اور کوئٹہ میں گیس سے دم گھٹنے، کان منہدم ہونے، ٹرالی کی رسی ٹوٹنے جیسےمختلف حادثات میں پندرہ کانکنوں کی موت ہوچکی ہے۔ 
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے صدر لالہ محمد سلطان کا کہنا ہے کہ حکومت اور کوئلہ کان مالکان کی لا پرواہی سے کان کنوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ حکومت حادثات کے ذمہ داروں کے خلاف معمولی جرمانے عائد کرنے کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں کرتی۔

شیئر: