سکیورٹی خدشات، بلوچستان میں ہزاروں کان کنوں نے کام چھوڑ دیا
سکیورٹی خدشات، بلوچستان میں ہزاروں کان کنوں نے کام چھوڑ دیا
جمعہ 22 جنوری 2021 9:47
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
مزدور تنظیموں کے مطابق کان کن خوفزدہ ہیں اور موجودہ صورتحال میں کام نہیں کرنا چاہتے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مچھ میں دس ہزارہ کان کنوں کے قتل کے واقعہ کے بعد سے بلوچستان میں کوئلہ کی صنعت سے وابستہ ہزاروں کان کن عدم تحفظ کے باعث کام چھوڑ کر آبائی علاقوں کو چلے گئے ہیں۔ مزدوروں کے جانے سے سینکڑوں کانیں بند اور کوئلے کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔
مزدور تنظیموں کے مطابق کان کن خوفزدہ ہیں اور موجودہ صورتحال میں کام نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کان کنوں کی حفاظت کیلئے انتظامات کو مزید مؤثر بنایا گیا ہے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے صدر لالہ محمد سلطان نے اردو نیوز کو بتایا کہ کوئٹہ اور ضلع کچھی (بولان) کی حدود میں آب گم، مارگٹ اورمارواڑ میں دس ہزار کے لگ بھگ کان کن جان و مال کے تحفظ کے خوف سے کام چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ڈیگاری، سورینج، پیر اسماعیل زیارت اور دیگر علاقوں سے بھی نسبتاً کم تعداد میں کان کن کام چھوڑ چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بیشتر کان کنوں کا تعلق خیبر پخونخوا کے مالا کنڈ ڈویژن دیر، سوات، شانگلہ کے اضلاع اور افغانستان کے مختلف علاقوں سے ہیں۔ کام چھوڑنے والے کان کن اپنے آبائی علاقوں کو واپس گئے ۔ مزدوروں کے جانے کے بعد تقریباً ساڑھے چار سو کانیں اور کئی ڈپو بھی بند ہوگئے۔
لالہ سلطان کے مطابق کام چھوڑنے والوں میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے کان کن بھی شامل ہیں تاہم اسسٹنٹ کمشنر مچھ سید سمیع اللہ آغا کا کہنا ہے کہ واقعہ کے بعد مچھ اور اطراف میں واقع کوئلہ کانوں اور وہاں کام کرنے والے کان کنوں کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ نئی چیک پوسٹیں قائم کرنے کے علاوہ دن رات مسلسل پٹرولنگ بھی شروع کی گئی ہے۔ سکیورٹی اقدامات سے ہزارہ کان کنوں کا اعتماد بحال ہوا ہے اور وہ واپس آ رہے ہیں۔
چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان شفقت فیاض نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ہمیں بھی ایسی رپورٹس مل رہی ہیں کہ کان کن واپس جا رہے ہیں اور کانیں بند ہو رہی ہیں۔ مارگٹ، آب گم اور مارواڑ کے علاقوں سے ایسی اطلاعات ملی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں وجوہات کا علم نہیں، ہوسکتا ہے کان کنوں کو سکیورٹی کے خدشات لاحق ہوں۔
لالہ سلطان نے بتایا کہ کچھ کان کن 3 جنوری کو بولان (کچھی ) کے علاقے مچھ میں دس ہزارہ کان کنوں کے قتل سے قبل بھی جاچکے تھے کیونکہ انہیں سکیورٹی خطرات لاحق تھے تاہم اس لرزہ خیز واردات کے بعد مزدور خود کو زیادہ غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کان مالکان، ٹھیکیداروں، انتظامیہ اور لیبر یونین کے عہدے داروں نے بھی مزدوروں سے بات کی مگر وہ موجودہ صورتحال میں کام نہیں کرنا چاہتے۔
لالہ سلطان نے بتایا کہ بند ہونے والی ہر کان میں جہاں سینکڑوں کان کن کام کرتے تھے اب وہاں صرف چند کان کن ہی رہ گئے ہیں تاکہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کان میں پانی اور گیس جمع نہ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ کانیں بند ہونے سے سینکڑوں کی تعداد میں غیر کان کن مزدور اور ٹرک ڈرائیورز بھی بے روزگار ہوئے ہیں۔
مائنز انسپکٹر مچھ جمعہ خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ آب گم اور مارگٹ میں تقریباً دس کمپنیاں بند ہوئی ہیں جو تقریباً سو کانوں پر کام کر رہی تھیں۔ کانیں بند ہونے سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی پیداوار میں تیس فیصد تک کمی آئی ہے۔ جبکہ مائنز انسپکٹر کوئٹہ رشید ابڑو کے مطابق مارواڑ اور گرد ونواح میں کوئلہ کی 40 کانوں میں سے 12سے 14 کانیں بند ہوئی ہیں جس سے پیداوار میں 30 سے 35 فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہاں تقریباً چھ ہزار کان کن کام کرتے ہیں جن میں سے اندازاً 1500 کان کن واپس جا چکے ہیں۔
محکمہ معدنیات بلوچستان کے مطابق کوئٹہ، بولان، ہرنائی، لورالائی اور دکی سمیت بلوچستان کے سات اضلاع میں کوئلہ کے تقریباً 268 ملین ٹن ذخائر اور 2800 کوئلہ کانیں موجود ہیں جن سے ہر سال 20 لاکھ ٹن سے زائد کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور خیبر پشتونخوا کے کارخانوں ، اینٹوں کے بھٹوں اور توانائی کے شعبے میں استعمال ہوتا ہے۔
لالہ سلطان کے مطابق کانیں بند ہونے سے پیداوارمیں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے پنجاب ، سندھ اور خیبر پشتونخوا میں کوئلہ سے چلنے والے کارخانے اور شعبے بھی متاثر ہوں گے۔
چیف انسپکٹر آف مائنز شفقت فیاض کے مطابق صوبے کی کوئلہ کانوں میں تقریباً 70 ہزار افراد کان کنی کا کام کرتے ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق خیبر پختونخوا کے سوات، دیر اور شانگلہ کے اضلاع سے ہے۔ ایک بڑی تعداد افغان کان کنوں کی بھی ہے۔
بلوچستان حکومت نے مچھ واقعہ کے بعد اجازت کے بغیر افغان مزدوروں کے کانوں میں کام کرنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم چیف انسپکٹر مائنز کا کہنا ہے کہ قانون میں غیر ملکی کان کنوں کے کام کرنے پر پابندی کی کوئی شق موجود نہیں۔
جولائی 2012ء میں ڈیگاری کے مقام پر کالعدم علیحدگی پسند بلوچ مسلح تنظیم کے ہاتھوں سات کان کنوں کے اغواء اور قتل کے واقعہ کے بعد بھی ہزاروں کی تعداد میں کان کنوں نے کام چھوڑ دیا تھا جس کے بعد کوئلہ فیلڈز میں سکیورٹی کے انتظامات ایف سی نے سنبھال لیے تھے۔ سکیورٹی انتظامات کے بدلے کوئلہ کان مالکان کی جانب سے ایف سی کوفی ٹن 220 روپے ادا کیے جاتے ہیں۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے صدر لالہ محمد سلطان کے مطابق گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران قتل اور اغوا سمیت کان کنوں پر حملوں کے کم سے کم بیس واقعات ہو چکے ہیں۔ لیکن ہزارہ کان کنوں کے علاوہ کسی متاثرہ کان کن کو حکومت سے کوئی مالی امداد نہیں ملی۔
انہوں نے بتایا کہ کوئلہ کی پیداوار کے ذریعے صوبے کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کروڑوں روپے اضافہ کرنے والے بلوچستان کے ہزاروں کان کن ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ حکومت اور کوئلہ کان مالکان کی لاپرواہی اور موثر حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث ہر سال اوسطاً 100 کان کن گیس جمع ہونے، ٹرالی لگنے اور کان منہدم ہونے جیسے حادثات میں جانیں کھو بیٹھتے ہیں۔