Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لڑنے کے بجائے جنوبی ایشیا میں غربت اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے کام کریں‘

جنرل باجوہ نے کہا کہ دنیا نے عالمی جنگ اور سرد جنگ کی تباہی کو دیکھا ہے۔ فائل فوٹو: آئی ایس پی آر
پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ’جنوبی ایشیا میں غربت اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے کام کریں بجائے یہ کہ آپس میں لڑیں۔‘
جمعرات کو اسلام آباد میں دو روزہ سیکورٹی ڈائیلاگ کے اختتامی سیشن سے خطاب میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ سکیورٹی چیلنجز کے باوجود پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہیں جس نے اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونے سے گریز کیا ہے۔
’انڈیا کے ساتھ کشیدگی کی صورتحال میں ہمارے ردعمل نے اس عزم کو ظاہر کیا کہ ہم خطے میں مسابقت کے بجائے ہم آہنگی کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ’ہمارے دفاعی اخراجات میں اضافی کی بجائے کمی ہوئی ہے۔ یہ آسان نہیں ہے خاص کر جب آپ جارحیت پسند اور غیر مستحکم ہمسایوں کے ساتھ رہ رہے ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم اہنے ہمسایوں کے ساتھ تمام غیر معمولی مسائل کو پرامن اور باوقار مزاکرات کے ساتھ حل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے اور کسی دباؤ کا نتیجہ نہیں ہے۔‘
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے غیر حل شدہ تنازعات پورے خطے کو غربت میں دھکیل رہے ہیں۔ ’یہ جان کر افسوس ہوا کہ آج بھی یہ (جنوبی ایشیا) تجارتی انفرااسٹرکچر، پانی اور توانائی کے تعاون کے لحاظ سے دنیا کے سب سے کم مربوط خطوں میں شامل ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ غربت کے باوجود ہم اپنا بہت سارا پیسہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں، جو لازمی طور پر انسانی ترقی کی قیمت پر آتا ہے۔‘

جنرل قمر جاوید باوجوہ کا کہنا ہے پاکستان کو صرف سی پیک کے تناظر میں دیکھنا غیرمنطقی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے قریبی تعاون سے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان تاریخی معاہدہ ممکن ہوا اور انٹرا افغان مزاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔‘
’ہم افغانستان کے لوگوں کی بہتری اور خطے کے امن کے لیے مزاکرات کی حمایت جاری رکھے گے۔ اس کے علاوہ ہم افغانستان کو انڈیا تک اپنی اشیا کی برآمدات کے لیے راستہ بھی فراہم کریں گے۔‘
انہوں نے انڈیا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے مزید کہا کہ ’پاکستان اور بھارت کے مستحکم تعلقات مشرقی اور مغربی ایشیا کے مابین رابطے کو یقینی بناتے ہوئے جنوبی اور وسطی ایشیا کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کلید ہیں۔‘
’لیکن یہ تمام صلاحیتیں دونوں ایٹمی ہمسایوں کے تنازعات اور مسائل کے ہاتھوں یرغمال بنی رہی ہیں۔‘

جنرل قمر جاوید باوجوہ نے کہا کہ امریکہ اور افغان طالبان کے امن معاہدے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

آرمی چیف نے مزید کہا کہ 'پاکستان زبردست معاشی صلاحیتوں والا ملک ہے اور اس ملک کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے مستقبل کے لیے ایک مستحکم روڈ میپ تیار کریں۔  
انہوں نے کہا جیو اقتصادی خطہ چار مرکزی ستونوں پر مرکوز ہے۔ جس میں پائیدار امن کے لیے اندورنی اور بیرونی طرف بڑھنا، ہمارے ہمسایہ اور علاقائی ممالک کے معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہ کرنا، علاقائی تجارت اور روابط کو فروغ دینا اور سرمایہ کاری اور معاشی مراکز کے قیام کے ذریعے پائیدار ترقی اور خوشحالی لانا شامل ہیں۔  
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ  نے کہا کہ پاکستان چاروں پہلوؤں پر کام کر رہا ہے۔ 'ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ اپنا گھر ٹھیک کیے بغیر باہر سے کسی چیز کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ہم نے دہشت گردی کے ناسور اور شدت پسندی کی لہر پر قابو پانے کے بعد اب ہم نے پسماندہ علاقوں کی  پائیدار ترقی کے لیے کام شروع کیا ہے۔ '
فوج کے سربراہ نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس مسئلے کی بنیاد کشمیر ہے۔ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا۔‘
’ہمیں لگتا ہے کہ یہ ماضی کو دفنانے اور آگے بڑھنے کا وقت ہے لیکن اس کے لیے ہمارے ہمسایے کو اپنے زیرانتظام کشمیر میں ایک سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔‘
جنرل قمر جاوید باجوہ نے سی پیک کے حوالے سے کہا کہ ’سی پیک اہم اقتصادی منصوبہ ہے لیکن پاکستان کو صرف سی پیک کی آنکھ سے دیکھنا غیر منطقی ہے۔‘
فوج کے سربراہ نے کہا کہ ’یہ ایک عالمی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نیشنل سکیورٹی کا عصر حاضر کا تصور ملک کو صرف اندورنی اور بیرونی خطرات سے بچانے کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا سازگار ماحول فراہم کرنا بھی ہے جہاں انسانی سلامتی کی خواہش اور قومی ترقی پنپ سکیں۔ لازمی طور پر یہ صرف فوج کا کام نہیں رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دنیا نے عالمی جنگ اور سرد جنگ کی تباہی کو دیکھا ہے۔ جس میں تقسیم اور خوبیوں کی نظراندازی نے مستقبل کو دھندلا ڈالا اور انسانیت کے لیے تباہ کن نتائج لائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج دنیا میں تبدیلی کے سب سے اہم محرکات ڈیموگرافی، معیشت اور ٹیکنالوجی ہیں۔ تاہم ایک مسئلہ جو اس تصور میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے وہ ہے اقتصادی سلامتی اور تعاون۔ دنیا کے متعدد طاقتوں کے مراکز کے مابین کمزور تعلقات اور مسابقتی اتحادوں کے عروج کا نتیجہ ایک اور سرد جنگ کے تناؤ کے علاوہ کچھ بھی نہیں لا سکتا ہے۔‘

شیئر: