بنگلہ دیش: شیخ حسینہ اور مودی کی مزاحیہ ویڈیو بنانے پر نوجوان گرفتار
بنگلہ دیش: شیخ حسینہ اور مودی کی مزاحیہ ویڈیو بنانے پر نوجوان گرفتار
جمعرات 1 اپریل 2021 20:51
انیس سالہ ربی الاسلام نے وزرائے اعظم کی تصویروں پر مشمتل مزاحیہ ویڈیو بنا کر نیٹ پر ڈالی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں جمعرات کو ایک نوجوان کو وزیراعظم شیخ حسینہ اور ان کے انڈین ہم منصب نریندرا مودی کا مذاق اڑانے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق نوجوان نے ایک مزاحیہ میوزک ویڈیو بنائی تھی جس کی وجہ سے وہ ملک کے سخت ترین انٹرنیٹ قوانین کی لپیٹ میں آئے۔
مقامی پولیس چیف عبداللہ المامون کا کہنا ہے کہ 19 سالہ ربی الاسلام کو حکومت کے حمایتی ایک شخص کی شکایت پر گرفتار کیا گیا۔
عبداللہ المامون نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’نوجوان نے ایک توہین آمیز میوزک ویڈیو بنائی جس میں بنگلہ دیشی اور انڈین وزرائے اعظم کی تصویریں بھی استعمال ہوئیں اور پھر اس ویڈیو کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ڈالا۔‘
یہ گرفتاری انڈین وزیراعظم کے بنگلہ دیش کے دورے کے موقع پر پرتشدد احتجاج کے چند روز عمل میں آئی ہے۔ یہ احتجاج زیادہ تر اسلامسٹوں کی جانب سے کیا گیا تھا جس میں تیرہ افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔
پولیس کے مطابق ربی الاسلام کو جمعرات کے روز عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے ان کا ریمانڈ منظور ہوا۔ ان کو سربراہ حکومت کی توہین کرنے کے جرم میں چودہ سال کی سزا ہو سکتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ کے حوالے موجود سخت قوانین حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ سے لے کر اب تک سینکڑوں لوگوں کو وزیراعظم یا دوسرے سینیئر سیاسی حکام کی توہین کرنے کے جرم میں سزا دی گئی ہے۔
اسلام کی گرفتاری سے تین روز قبل پیر کو ایک مقامی صحافی نعیم الرحمان کو بھی گرفتار کیا گیا کیونکہ مقامی الیکشن کی کوریج کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر شیخ حسینہ کے خلاف گفتگو کی تھی۔
ان کا تبصرہ حکومتی حامیوں سے سن لیا اور پولیس کو شکایت درج کرا دی۔
براڈ کاسٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے سربراہ مصطفیٰ جمال نے اے ایف پی کو بتایا کہ نعیم الرحمان کی گرفتاری پولیس اور موجودہ حکمران پارٹی کی جانب سے غیر قانونی طور پر اختیارات کا استعمال ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں کام سے زیادہ قانون کا مطالعہ کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے نمائندے سعد حمدانی نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے کہ گرفتاریاں ایسے قوانین کا نتیجہ ہیں جن کی وجہ سے بنگلہ دیش آزادی اظہار رائے کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کے ساتھ کیے جانے والے وعدے میں ناکام ہوا ہے۔
مارچ میں لکھاری مشتاق احمد کی حراست میں موت پر بھی احتجاج ہوا تھا، ان کو بھی انٹرنیٹ لا کے تحت ہی گرفتار کیا گیا تھا۔
احمد نے ایک آرٹیکل شائع اور فیس بک پر شیئر کیا تھا جس میں کورونا سے نمٹنے کے حوالے سے حسینہ واجد پر تنقید کی گئی تھی۔
ان کے ساتھ کارٹونسٹ احمد کبیر کشور کو بھی گرفتار کیا گیا تھا تاہم انہیں دو ہفتے بعد رہا کر دیا گیا۔
بنگلہ دیش کی عدالت نے کشور کے الزام کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں گرفتاری سے قبل تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔