حسین وادی کوسرد اور خشک ہوائیں اپنی لپیٹ میں لیتیں تو جیسے سارا کوئٹہ گھروں میں مقید ہو جاتا
غزالہ کامرانی ۔دمام
پتا نہیں فیض نے حمزہ کے اس گیت کا جب منظوم ترجمہ کیا تو ان کے دل میں کیا بات تھی اورحمزہ نے یہ گیت لکھتے وقت اپنے دیس کی وادیوں میں نجانے کیسی حسین بارشیں اورپربت پرکیسی برف دیکھی ہوگی لیکن میں جب بھی میں نیّرہ اور شہریار زیدی کے اس گیت کو سنتی ہوں اپنے بچپن میں کھو جاتی ہوں۔کوئٹہ اپنے سارے حسن کے ساتھ میرے تصور میں آجاتا ہے۔ میرا پیارا کوئٹہ! کوئٹہ میرے لئے ایک کیفیت ہے ،چلتن ،زرغون ،تکاتواور مردار کے پہاڑوں میں گھری یہ حسین وادی،یہاں کی سرد اور خشک ہوائیں جب وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتیں تو جیسے سارا کوئٹہ گھروں میں مقید ہو جاتا ۔
میرے والد اور جمیل چچا ،میرے ابو کے عزیز ترین دوست، ہم ان کو چچا ہی کہتے ہیں، بہت ہی پیاری شخصیت ہیں، بہت ساری زبانیں اس طرح جانتے ہیں جیسے انکی اپنی ہی زبان ہو۔ان کے بک شیلف میں اردو انگریزی ،فارسی ،جرمن ،ہندی ،بنگلا اور فرنچ کتابیں سجی ہوتیں۔وہ اور ابو دونوں ہی آتش دان کے سامنے کبھی پائپ اور کبھی سگار پیتے ہوے خانم گوگوش کو سنتے یا فیض کو۔
ابھی کوئٹہ میں قدرتی گیس کی فراہمی نہیں ہوئی تھی اور آتش دان میں ایک انگیٹھی رکھی ہوتی تھی جسے کوئٹہ اسٹوو کہا جاتا تھا اور اس میں لکڑی جلائی جاتی تھی۔وہ چٹختی ہوئی لکڑی کی آواز کیسا سحر پیدا کرتی تھی۔
جمیل چچا ابو کو ہمیشہ "موسیو" کہہ کر مخاطب کیا کرتے ۔خانم گوگوش کے مدھر گانے میرے کانوں کو اچھے بہت لگتے تھے لیکن فارسی سے ناواقفیت کی وجہ سے سمجھ نہیں آتے تھے ۔
دور پہاڑوں پر برف گر رہی ہوتی اور آتش دان میں آگ دہک رہی ہوتی ۔لکڑیوں کے چٹخنے کی آواز کے ساتھ میرے کانوں میں نیّرہ اور شہریار کا گیت
برکھا برسے چھت پر ،میں تیرے سپنے دیکھوں
برف گرے پربت پر ،میں تیرے سپنے دیکھوں
کتنا بھلا لگتا تھا ، واقعی.............۔