Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سفیروں کی تذلیل بھی قومی سلامتی کے عالمی اصولوں کے خلاف ہے‘

سفیروں سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کے سخت زبان پر سابق سفیروں نے بھی تنقید کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بدھ کو پاکستانی سفیروں سے خطاب میں سخت زبان کے استعمال کے بعد ریٹائرڈ سفارت کاروں کے بعد حاضر سروس سفیروں کی جانب سے بھی اعتراض سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔
جمعرات کو یونان میں تعینات پاکستانی سفارت کار یاور عباس نے ٹوئٹر پر وزیراعظم کام نام لیے بغیر لکھا کہ سفیروں کی تذلیل قومی سلامتی کے خلاف ہے۔
 انہوں نے لکھا ’سفارت کار ملک کے دفاع کا ہر اول دستہ ہوتے ہیں۔ جب سفارت کاری ناکام ہوتی ہے تو جنگ ہوتی ہے اور جنرل  میدان میں آتے ہیں۔ جس طرح کسی جنرل کی تذلیل ملکی سلامتی کے منافی ہے اسی طرح سفیروں کی تذلیل بھی قومی سلامتی کے عالمی اصولوں کے خلاف ہے۔‘
اگرچہ چند گھنٹوں بعد انہوں نے ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا مگر تب تک ان کا پیغام ہر طرف پھیل چکا تھا۔
یاور عباس جو یونان میں پاکستان کے ہیڈ آف چانسری ہیں، نے اس معاملے پر متعدد اور بھی ٹویٹس کیں جو اب بھی ٹوئٹر پر موجود ہیں۔
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل سے منسلک وزارتوں کی فہرست پیش کی جس میں وزارت داخلہ، نادرا، اور وزارت اوورسیز کا تذکرہ کیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے ٹویٹس کی ایک سیریز میں دنیا بھر میں پاکستانی سفارت کاروں کی اچھی کارکردگی کا جائزہ پیش کیا۔
یاد رہے کہ وزیراعظم نے بدھ کو بیرون ممالک سفارت خانوں میں تعینات پاکستانی سفیروں سے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جسے بعد میں انہوں نے ٹوئٹر پر یوٹیوب لنک کی شکل میں بھی شئیر کیا۔ 

وزیر اعظم نے خطاب میں نا صرف چند پاکستانی سفارتکاروں کے رویے کو برطانوی سامراج کے رویے سے تشبیہ دی بلکہ کہا کہ پاکستان کی نسبت انڈین سفارتخانے سرمایہ لانے کے لیے زيادہ متحرک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی سفارتخانے جس طرح چلائے جا رہے ہيں وہ اس طرح نہيں چل سکتے۔
انہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں  خصوصاً محنت کشوں کے ساتھ سفارتکاروں کے رویے پر شدید تنقید کی اور اس سلسلے میں سعودی عرب کی مثال بھی دی جہاں پر شکایات کے بعد سفیر سمیت متعدد سفارتی عملے کے ارکان کو واپس بلایا گیا ہے۔
وزیراعظم کے خطاب کے بعد مقامی میڈیا کے مطابق متعدد ممالک میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں نے وزیرخارجہ سے رابطہ کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔

جدہ میں مقیم عمر حیات نے وزیراعظم کی سفارت کاروں سے گفتگو کی تائید کی ہے  (فوٹو: سکرین گریب)

دوسری طرف سابق سینیئر سفارت کاروں نے بھی وزیراعظم کے خطاب پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباسی جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ نے تو ٹوئٹر پر سخت رد عمل دیا۔
جناب وزیراعظم کاش آپ کو سفارتی مشنز کے کام کے انداز کے حوالے سے اچھی طرح بریف کیا جاتا۔ خدمات جیسے کہ ڈگریوں کی تصدیق، میرج سرٹیفیکیٹ، لائسنس وغیرہ کا تعلق ایچ ای سی، وزارت داخلہ یا صوبائی حکومتوں سے ہے۔ ان سے بروقت جواب نہیں ملتا اس لیے تاخیر ہو جاتی ہے۔ سفیروں کو الزام دینا غیر منصفانہ ہے۔‘
اسی طرح  تہمینہ جنجوعہ کا کہنا تھا کہ ’وزارتِ خارجہ پر کی جانے والی غیر ضروری تنقید پر مجھے بہت افسوس ہوا ہے۔ لگتا ہے سفارت خانوں کے قونصلر ورک، وسائل کی کمی اور سفیروں کے کنٹرول سے باہر دیگر محکموں کے کردار کے حوالے سے بہت کم سوچھ بوجھ پائی جاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’کیا افسران نوآبادیاتی سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ جی نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ووہان میں افسران نے کمیونٹی کی رضاکارانہ مدد کی، سفارت خانوں نے پھنسے پاکستانیوں کا خیال رکھا اور کھانا تقسیم کیا۔ معیار میں بہتری لانے کے لیے نظام سے جڑے مسائل حل کرنا ہوں گے، یہ کام ٹویٹس سے نہیں ہو سکتا۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق سفیر شیری رحمان نے کہا کہ ’سفارت کار خود سے تجارت نہیں بڑھا سکتے۔ ہاں کچھ سفارت خانوں میں قونصلر سروس بہتر کی جا سکتی ہے تاہم سفیروں کو سب کے سامنے کبھی نہیں ڈانٹا جاتا۔‘
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے وزیر اعظم کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کیوں مزدوروں کی سفارتخانوں تک رسائی روکنے والے فارن سروس کے حکام کے خلاف کارروائی نہ کی جائے؟
جمعے کو وزیر تجارت عبدالرزاق داؤد کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں سفارتخانے کے حکام نے رکاوٹیں کھڑی کرکے سفارتخانے تک جانے کا راستہ بند کیا تاکہ مزدوروں اندر داخل نہ ہو سکیں۔ ’کیا ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کرنی چاہیے؟‘
Foreign Service is in no position to generate trade on it’s own.Yes it can provide better consular services at some missions, but publicly telling off all ambassadors is never done. In key embassies they work round the clock with meagre resources; demotivating them is not a thing https://t.co/LG48il3YU0
اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بھی وزیراعظم کے خطاب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سفارت کاروں کی تضحیک نہیں کی جانی چاہیے۔
تاہم عام ٹوئٹر صارفین کی اکثریت نے وزیراعظم کی تائید کی اور کہا کہ بیرون ملک سفارت خانے پاکستانیوں کی مدد کرنے کے لیے وہ کردار ادا نہیں کرتے جس کی توقع کی جاتی ہے۔
جدہ میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ورکرز نے بھی وزیراعظم کی سفارت کاروں سے کی گئی گفتگو کی تائید کی۔
جدہ میں ایک ریستوران سے منسلک عمر حیات نے کہا کہ ’سفارت خانے کے حوالے سے اقدام بہت قابل ستائش ہے ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہمارے لیے سوچا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے۔‘
ایک اور پاکستانی انجم عقیل وڑائچ نے کہا کہ سفارت خانوں کے حوالے سے وزیراعظم کے اقدامات کی تائید کرتے ہیں۔  انہوں نے مزدوروں کی بات کی اور پاکستانیوں کے مسائل کی حل کی بات کی جو کہ اچھا اقدام ہے جس میں پاکستانیوں کے لیے بہتری آئے گی۔

شیئر: