شامی کیمپ میں27 ہزار بچے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں
شامی کیمپ میں27 ہزار بچے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں
جمعرات 3 جون 2021 17:15
یہ کیمپ بچوں کے رہنے یا ان کے پھلنے پھولنے کی جگہیں نہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)
شام میں موجود وسیع وعریض الہول کیمپ میں بچے سڑکوں پر گھومتے، داعش کےعسکریت پسندوں کی نقالی کرتے مصنوعی تلواروں اور کالے بینروں سے کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔
اے پی نیوز ایجنسی کے مطابق ان میں سے کچھ بچے پڑھ لکھ سکتے ہیں جبکہ کچھ بچوں کے پاس ماوں کی دی ہوئی تعلیم ہے جو داعش پروپیگنڈے پرمبنی ہے۔
الہول کیمپ میں تقریباً 27 ہزار بچے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں جہاں داعش کے ارکان کے اہل خانہ رہائش پذیر ہیں۔ بظاہر ان بچوں کے حالات بہتر بنانے کے لئے بین الاقوامی سطح پر کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔
صرف ایک ادارہ ایسا ہے جو ان بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لئے بچ گیا ہے۔ یہ کیمپ کے اندر کام کرنے والے داعش کے ہمدرد اور اس گروپ کی باقیات ہیں۔
کرد حکام اور امدادی گروپوں کو خوف ہے کہ یہ کیمپ عسکریت پسندوں کی نئی نسل تیار کرے گا۔ وہ متعلقہ ممالک سے التجا کر رہے ہیں کہ خواتین اور بچوں کو واپس لے جائیں تاہم یہ حکومتیں ان بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے عموماً انہیں کسی خطرہ کے طور پر دیکھتی ہیں۔
'چلڈرنز سیریا رسپانس' کی ڈائریکٹر سونیا خوش نے کہاہے کہ یہ بچے داعش کا اولیں شکار ہیں۔ ایک 4 سالہ لڑکے کا حقیقتاًکوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ اسے تو تحفظ اورآموزش درکار ہوتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ کیمپ بچوں کے رہنے یا ان کے پھلنے پھولنے کی جگہیں نہیں۔ یہ انہیں ان حالات سے باہر نکلنے نہیں دیتے جن سے وہ گزرے ہیں۔
خاردارتاروں سے محصور کیمپ میں کئی کئی خاندانوں کو اکٹھے خیموں میں ٹھونس دیا گیاہے۔ طبی سہولتیں کم ہیں، صاف پانی تک رسائی اور صفائی ستھرائی محدود ہے۔
اس کیمپ میں تقریبا 50 ہزار شامی اورعراقی ہیں جن میں 20 ہزار سے زائد بچے ہیں۔ باقی خواتین ہیں جن میں جنگجووں کی بیویاں اور بیوائیں شامل ہیں۔
کیمپ کے ایک علیحدہ انتہائی سخت پہرے والے حصے میں 57 دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والی 2 ہزار خواتین اور 8 ہزار بچے موجود ہیں۔ انہیں داعش کاشدید حامی سمجھا جاتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے گزشتہ ماہ کئے جانے والے کیمپ کے ایک نادر دورے کے موقع پر داعش کا اثر و رسوخ دیکھا گیا جب یہاں درجن بھر نوجوانوں نے ٹیم پر پتھراو کیا۔ ان کے ساتھ کرد محافظ بھی تھے۔ انہوں نے دھاتی ٹکڑے تلواروں کی طرح فضا میں لہرائے۔
اس خاص کیمپ انیکس میں روسی زبان بولنے والی ایک 42 سالہ خاتون نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی سمیت دیگربچوں کے مستقبل سے خوفزدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھنے، لکھنے کے قابل ہوں۔ ہم گھر جانا چاہتے ہیں اوراپنے بچوں کو ان کا بچپن دینا چاہتےہیں۔
کیمپ میں مختلف نظریات کی حامل خواتین موجود ہیں۔کچھ داعش سے عقیدت رکھنے والی ہیں۔ بعض اس کی ظالمانہ حکمرانی یا اس کی شکست سے مایوس ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جو نظریاتی طور پر کبھی مائل نہیں ہوئیں بلکہ انہیں ان کے شوہریا اہل خانہ داعش میں لائے تھے۔
کرد انتظامیہ مقامی مخالفت کے باوجود کیمپ کے رہائشیوں کی وطن واپسی کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ رواں سال کے شروع میں قبائل کے ساتھ ایک معاہدہ طے پانے کے بعد سیکڑوں شامی خاندان کیمپ سے چلے گئے تھے۔
سوویت یونین کی بعض سابقہ ریاستوں نے اپنے کچھ شہریوں کو واپس آنے کی اجازت دی ہے لیکن دوسرے عرب ، یورپی اور افریقی ممالک نے بہت کم تعداد میں انہیں واپس آنے کی اجازت دی ہے یا پھر انکار کردیا ہے۔
یونیسف کے میڈایسٹ اور شمالی افریقہ کے ڈائریکٹر ٹیڈ شیبان نے کہا ہے کہ ان بچوں کا کوئی قصور نہیں ، انہیں اپنے والدین کے انتخاب کی قیمت نہیں چکانی چاہئے۔
کردوں کے زیر انتظام مہاجروں اور بے گھرافراد کے محکمے کے سربراہ احمد نے کہا کہ اگر آبائی ممالک انہیں دوبارہ نہیں بسا رہے تو انہیں کم سے کم بچوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے سہولتوں کے قیام میں مدد فراہم کرنی چاہئے۔
کیمپ کے مرکزی حصے میں یونیسف اور کرد حکام نے سیکھنے سکھانے کے 25 مراکز قائم کئے ہیں لیکن کورونا کی وجہ سے مارچ 2020 سے وہ مراکز بند ہیں۔
کیمپ میں موجود 40 سالہ عراقی خاتون امل نے کہا کہ ان کی خواہش عراق واپس جاناہے جہاں ان کی بیٹیاں عام زندگی گزار سکتی ہیں۔ یہاں ان بچوں کا کوئی مستقبل نہیں۔