Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ میں نفرت پھیلانے والوں سے 'ترجیحی خطرے' کے طور پر نمٹا جائے گا

نئی حکمت عملی سے حکومتی اہلکاروں کو نفرت انگیز شدت پسندی کے واقعات میں بھی مداخلت کا اختیار ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
برطانیہ میں اسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی میں اضافے کے خدشات کے پیش نظر حکومت کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کے تحت نفرت کا پرچار کرنے والوں کو 'ترجیحی خطرے' کے طور پر لیا جائے گا۔
عرب نیوز کے مطابق برطانوی اخبار ٹیلی گراف کا کہنا ہے کہ وزرا انسداد دہشت گردی کے عملے کو ہدایات دینے کی تیاری کر رہے ہیں، جن میں حکام سے کہا جائے گا کہ ان افراد کی سرگرمیوں کا سدباب کیا جائے جو کسی دہشت گردانہ سرگرمی میں ملوث ہوئے بغیر 'خوف اور تقسیم' کا پرچار کر رہے ہیں۔
انسداد دہشت گردی کے ایک سابق اہلکار کے مطابق مذکورہ ہدایات کے بعد پولیس اور حکام مخصوص شدت پسندوں کو سڑکوں پر مواد تقسیم کرنے، بڑے اجتماعات منعقد کرنے اور انہیں پبلک میں گفتگو کرنے سے روک سکتے ہیں۔
مذکور فیصلہ حکومت کی انسداد انتہا پسندی کی کمشنر سارہ خان اور کاؤنٹر ٹیررزم پولیسنگ کے سابق سربراہ سر مارک ہاولے کی جانب سے جائزے کے بعد لیا گیا ہے۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ ’کئی نفرت پھیلانے والے شدت پسند بغیر کسی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوئے بلا روک ٹوک اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
جائزے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ شدت پسند اظہار رائے کی آزادی پر بری طرح اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے 'کیج' نامی ایک تنظیم کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے ممبران بیرون ملک پرتشدد جہاد کی حمایت کر رہے ہیں۔
جائزے میں مذکورہ گروپ پر شدت پسندی کو روکنے کے اقدامات کو اسلاموفوبیا قرار دینے کی کوشش کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
تاہم مبینہ طور پر مذکورہ جائزے میں دی گئی ایک الگ تجویز کو حکومت نے مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وزرا نفرت پھیلانے کے حوالے سے موجودہ قابل تعزیر جرائم کے دائرہ کار کو بڑھانے کی منظوری دیں۔

نئی پالیسی کے بعد برطانوی پولیس مخصوص شدت پسندوں کو بڑے اجتماعات منعقد کرنے سے روک سکتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

برطانوی اخبار نے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ ایسے گروپس اور نظریات کے سدباب میں لچک ہوگی جو کہ دہشت گردی کی تعریف پر تو پورا نہیں اترتے مگر ایسا ماحول پیدا کرنے میں معاون ہوتے ہیں جس میں دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔
نئی حکمت عملی سے انسداد انتہا پسندی کے اہلکاروں کو نفرت انگیز شدت پسندی کے واقعات میں بھی مداخلت کا اختیار ہوگا جس میں براہ راست دہشت گردی کے ساتھ تعلق کا کوئی ثبوت نہ بھی ہو۔
اس وقت حکومت کی موجودہ انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملی کی توجہ لوگوں کو دہشت گردی کی طرف مائل ہونے سے روکنے پر مرکوز ہے۔
حکام کو یہ بھی خدشہ ہے کہ برطانیہ میں حالیہ یہود مخالفت میں اضافے کے پیچھے اسلامی شدت پسندی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
ٹیلی گراف کے مطابق وزرا موجودہ قانون کے اندر ہی شدت پسند گروپوں سے نمنٹنے کے لیے نئی حکمت عملی پر متفق ہو گئے ہیں۔

شیئر: