نیشل کالج آف آرٹس یونیورسٹی: جہاں تین صدیوں پر محیط ثقافت محفوظ ہے
نیشل کالج آف آرٹس یونیورسٹی: جہاں تین صدیوں پر محیط ثقافت محفوظ ہے
جمعہ 11 جون 2021 5:48
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
ملکہ برطانیہ نے اکتوبر 1997 میں این سی اے کا دورہ کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں شاید ہی کوئی تعلیم سے وابستہ ایسا شخص ہو جس نے نیشنل کالج آف آرٹس یا این سی اے کا نام نہ سنا ہو۔ یہ لاہور میں واقع جنوبی ایشیا کی قدیم ترین درس گاہوں میں سے ایک ہے۔
مال روڈ پر اینگلو مغل فنِ تعمیر کا نمونہ این سی اے کی یہ عمارت پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے بالکل سامنے، لاہور عجائب گھر کے پہلو میں اپنے اندر تاریخ، فنون لطیفہ اور تقریباً آرٹس کی ہر قسم کے گہرے راز سموئے اپنی پوری شان و شوکت سے موجود ہے۔
این سی اے 146 سال بعد اب یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صدی پر محیط اس کہانی کا آغاز 1874 میں ہوا جب تاج برطانیہ نے متحدہ ہندوستان کے شہر لاہور میں پہلے دست کاری سکول کی منظوری دی۔
لیکن اس درس گاہ کے ریٹائرڈ استاد ڈاکٹر اعجاز انور بتاتے ہیں کہ ’یہ بات اس سے بھی تھوڑی پرانی ہے۔’
ڈاکٹر اعجاز نے بتایا کہ ’موجودہ این سی اے کی عمارت سے تھوڑا پہلے ٹولنٹن مارکیٹ واقع ہے جہاں اس خطے کی پہلی صنعتی نمائش 1864 میں منعقد ہوئی تھی۔‘
’نمائش میں ہندوستان کے باسیوں کے ہاتھ سے بنے ہوئے کئی طرح کے نمونے رکھے گئے۔ یہ پہلی بار تھا کہ مختلف فن پارے، اوزار اور اس قبیل کی اشیا باقاعدہ طور پر لوگوں کو دکھانے کے لیے یکجا کی گئیں۔ ان میں یہاں کے کلچر، ثقافت اور بودوباش کی نمایاں جھلک تھی۔‘
ڈاکٹر اعجاز انور بتاتے ہیں کہ ’اس نمائش کو بہت پذیرائی میسر آئی اور وہیں پہلے آرٹس سکول کے لیے آواز بھی بلند ہوئی۔‘
’یہ صنعتی نمائش بعد میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، ایک حصے کو لاہور سکول آف آرٹس کا نام دیا گیا جس میں فن پارے اور ان کو بنانے والے ہنرمند تھے اور دوسرے حصے میں تاریخی نوادرات تھے جس سے بعد میں لاہور عجائب گھر کی بنیاد پڑی۔‘
ڈاکٹر اعجاز انور نے بتایا کہ ’اسی دور میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کا آغاز ہوا تو لاہور میں تین عمارتیں بنائی گئیں، جنہیں جوبلی عمارتیں بھی کہا جاتا ہے۔‘
’ایک عمارت لاہور سکول آف آرٹس، دوسری عجائب گھر اور تیسری لاہور کارپوریشن (موجودہ ٹاؤن ہال) تھی۔ یہ تینوں عمارتیں اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ موجود ہیں۔‘
بعد ازاں لاہور سکول آف آرٹس کو وائسرائے ہند لارڈ میو سے منصوب کرتے ہوئے اس کا نام میو سکول آرٹس رکھ دیا گیا۔ وائسرے ہند لارڈ میو تاریخ کے ایک عجیب واقعے میں جزیرہ انڈمان کے دورے کے دوران ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
میو سکول آف آرٹس میں پہلے مختلف طرح کے ہنر سکھائے جاتے تھے جو صنعتوں میں استعمال ہوتے تھے۔
این سی اے کے سابق پرنسپل ڈاکٹر سجاد کوثر کہا کہنا ہے کہ ’شروع میں یہاں لکڑی کا کام، فوٹوگرافی اور لیتھیو گرافی کی تربیت دی جاتی تھی، یہاں کے فارغ التحصیل افراد کی بہت مانگ تھی۔‘
’تقسیم ہند کے بعد میو سکول آف آرٹس کو 1958 میں نیشنل کالج آف آرٹس کا نام دیا گیا۔ حکومت پاکستان نے اس ادارے کی اپنی ثقافت اور کلچر کو کبھی نہیں چھیڑا اور یہ ادارہ جو آرٹ کا ورثہ لے کر آیا تھا اس کو جاری رکھے ہوئے ہے۔‘
نیشنل کالج آف آرٹس یعنی این سی اے بننے کے بعد یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ کو ڈپلومہ ملتا تھا۔ میٹرک کے بعد یہاں داخلے کی اہلیت تھی اور یہ ڈپلومہ چار سال پر محیط تھا۔ بعد ازاں داخلے کے لیے ایف اے پاس ہونا شرط رکھ دی گئی۔
اس ادارے نے ملک کے بہت بڑے بڑے ناموں کو جنم دیا۔ چاہے وہ نیئر علی دادا ہوں، نیرہ نور ہوں یا دور جدید کے علی ظفر اور میشا شفیع ہوں۔
این سی اے نے ہر شعبے میں مایہ ناز نام پیدا کیے۔ یہی وجہ ہے کہ این سی اے آج اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔
ڈاکٹر سجاد کوثر کہتے ہیں کہ ’اس ادارے نے اپنے تعلیمی معیار پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنی روایات کو ہمیشہ برقرار رکھا۔‘
’یہی وجہ ہے کہ ملک بھر سے آرٹ کو سمجھنے والے بہترین دماغ جو ہیں یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں، وہی اپنی جگہ بناتے ہیں۔ تخلیقی کام ہی ارتقا کے عمل کو سہارا دیتا ہے یہی وجہ ہے ملک کے حالات چاہے کچھ بھی رہے ہیں اس ادارے نے آرٹ کے ذریعے اپنی ایک مخصوص جدوجہد کو قائم رکھا۔‘
ڈاکٹر سجاد کوثر نے ضیاالحق دور میں این سی اے کی آرٹ کے ذریعے جدوجہد کے حوالے سے بتایا کہ ’جب ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس وقت این سی اے کی دیواریں پھانسیوں سے بھر گئی تھیں۔‘
’اور بھی فن تخلیق ہوا وہ اسی موضوع پھر تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی ایک بھی طالب علم ہو جس کے تھیسز کا عنوان پھانسی نہ ہو۔‘
این سے سے فارغ التحصیل تمام طلبہ اور اساتذہ اس بات پر تو خوش ہیں کہ این سی اے کو بالآخر یونیورسٹی کا درجہ مل گیا ہے، تاہم وہ اس کے نام کی تبدیلی میں تھوڑا تذبذب کا شکار ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز انور کہتے ہیں کہ ’یونیورسٹی کا درجہ تو بہت پہلے ہی مل جانا چاہیے تھا لیکن نام این سی اے ہی رہے تو بہتر ہے، اس نام کا اپنا سحر ہے۔‘
’گورنمنٹ کالج لاہور کو جب یونیورسٹی بنایا گیا تو لوگوں نے آواز اٹھائی کہ نام نہ بدلا جائے۔ اسی طرح کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے لوگ بھی گاہے گاہے یونیورسٹی کا لاحقہ ہٹانے کی بات کرتے ہیں۔ خیر یہ تو احساسات کی بات ہے لیکن اس ادارے کا اور آگے بڑھنا بہرحال ایک سنگ میل ہے۔‘