Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاہ جہاں کی بیوی ممتاز محل، جو ہر لحاظ سے ’ممتاز‘ تھیں

ممتاز محل شاہ جہان کی سب سے محبوب بیوی تھیں۔
شام کا دھندلکا ہے، شاہی محل کے کمرہ خاص میں شطرنج کی بساط بچھی ہے۔ آمنے سامنے بیٹھے حریف خاتون و مرد ہیں۔ بازیاں پہلے بھی لگتی رہی ہیں، جیت کے تناسب میں بھی زیادہ فرق نہیں مگر آج کچھ زیادہ بڑی بازی ہے۔ بادشاہ کا مزاج کچھ زیادہ ہی شاہی ہو چلا ہے اوروہ شرط میں تخت و تاج لگا بیٹھے ہیں۔
کھیل جاری ہے۔ بادشاہ، کھلاڑی،غلام، پیادے انہی حریفوں کی چالوں کے مطابق آگے پیچھے چلتے، مرتے، جیتے رہتے ہیں۔ سنسنی بڑھ رہی ہے، ملکہ سوچتی ہے کہ اگر وہ جیت گئی تو کیا کرے گی اور بادشاہ سوائے اس کے کیا سوچ سکتا ہے کہ اگر وہ ہار گیا تو کیا ہوگا؟ پھر بازی چلتے چلتے وہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ بادشاہ کو اپنی شکست نظر آنا شروع ہو جاتی  ہے۔ تب وہ مسکراتا ہے اور سوچتا ہے کہ جب ہم ملکہ کے ہیں تو تخت و تاج بھی انہی کا ہوا اور جب وہ ہماری ہیں تو سب ہمارا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ ہار جاتا ہے اور ملکہ کی ہنسی گونجتی ہے۔
یہ اوراس طرح کے دیگر واقعات شاہ جہان اور ممتاز محل  کی محبت کی گواہی دیتے ہیں اور آج بھی ان کی یادگار ’تاج محل‘ کو محبت کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
شاہ جہان کا پورا نام شہاب الدین محمد شاہ جہاں اول یا مرزا شہاب الدین بیگ محمد خان خرم تھا۔ وہ جنوری 1592 کو پیدا ہوئے اور سلطنت مغلیہ کے پانچویں بادشاہ بنے۔ شاہ جہان نے 1628 سے 1658 تک ہندوستان پر حکومت کی۔
ممتاز محل کا پورا نام ارجمند بانو ممتاز تھا وہ 27 اپریل 1593کو آگرا میں پیدا ہوئیں۔ 30 اپریل 1612 میں ان کی شادی شاہ جہان سے ہوئی، جو ممتاز کی پہلی اور شاہ جہان کی تیسری شادی تھی۔ وہ ابوالحسن آصف خان کی بیٹی اور ملکہ نورجہاں کی بھتیجی تھیں۔ ان کے والد آصف خان مغلیہ دربار میں ایک اعلٰی عہدے پر فائز تھے۔

ممتاز بیگم نے ہر دکھ سکھ کے موقعہ پر شاہ جہان کا ساتھ دیا۔

ممتاز ہر لحاظ سے ’ممتاز‘ تھیں، وہ شاہ جہان کی سب سے محبوب بیوی تھیں، ان کو حکومتی معاملات میں دخل اندازی کی بھی اجازت حاصل تھی، بلکہ کچھ تاریخ دان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اصل حکمران وہی تھیں۔ ان کے مشورے کے بغیر شاہ جہان کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ اس دوران شاہ جہان ملکی معاملات میں سامنے آنے والے مسائل کے ساتھ ساتھ خاندان میں پیدا ہونے والی تلخیوں کا شکار بھی ہوئے خصوصاً جب ان کے اپنے بھائی کے ساتھ شہنشاہ بننے کے معاملے پر جھگڑا ہوا اور سازشوں کا سلسلہ چلا تو ممتاز نے ڈٹ کر شوہر کا ساتھ دیا۔
ممتاز ہر موقع پر شاہ جہان کے ساتھ کھڑی رہیں حتیٰ کہ جب سلطنت کے خلاف بغاوت ہوئی اور جنگی صورت حال پیدا ہونے پر بادشاہ کو جنگی محاذوں پر جانا پڑتا تو ممتاز محل بھی ان کے ہمراہ ہوتیں۔ دیگر بیگمات کے مقابلے میں بادشاہ ممتاز کو زیادہ وقت دیتے تھے۔ ان کو وہ تمام رعایات حاصل تھیں جن کا دوسری بیگمات یا محل کے اندر کوئی سوچ تک نہیں سکتا تھا۔
شاہی جوڑے کے 14 بچے تھے اور چودھویں بچے کی پیدائش پر زچگی کی پیچیدگی کے باعث ممتاز آج کے دن، یعنی 17 جون 1631 کو 39 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اس واقعے نے شاہ جہان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ انہوں نے خود کو بہت محدود کر لیا تھا، سفید ہونے والے بالوں کو اکھاڑنا چھوڑ دیا اور موسیقی کا شغف ترک کر دیا۔ وہ سفید کپڑے پہننے لگے اور مسلسل رونے سے ان کی نظر کمزور ہو گئی تھی۔ انہوں نے ممتاز کی یاد میں تاج محل بنوایا جو ممتاز کا مقبرہ بھی ہے. بعدازاں 22 جنوری 1666 کو وفات کے بعد شاہ جہان بھی یہیں دفن ہوئے۔

زندگی کے متنازعہ پہلو

ویسے تو شاہی جوڑے کی ازدواجی زندگی خوش و خرم گزری تاہم کچھ مؤرخین نے ایسے واقعات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے جو ان کے درمیان تلخیوں کا باعث بنے یہاں تک کہ ممتاز محل کی وفات کو بھی مشکوک قرار دیا جاتا ہے۔

شاہ جہان نے تاج محل بنوایا جو ممتاز کا مقبرہ بھی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ ممتاز اور شاہ جہان کی زندگی کے اس پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس میں ’سب ٹھیک‘ نہیں تھا۔ ممتاز کا زیادہ بچوں کی پیدائش کے معاملے پر بادشاہ کے ساتھ اختلاف  ہوا، جو وقت کے ساتھ بڑھتا رہا۔ ممتاز محل زیادہ حسین و جمیل نہیں تھیں تاہم وہ بلا کی باصلاحیت تھیں جس کی وجہ سے جلد ہی ان کا اثرورسوخ دربار تک پہنچ گیا اور حکومتی معاملات بالواسطہ طور پر ان کے ہاتھ میں آ گئے جس پر محل میں تشویش پیدا ہو گئی تھی۔
سنہ 2014 میں بھارت میں بننے والے ’شاہ جہان و ممتاز‘ نامی ڈرامے میں ایسے پہلوؤں کی طرف خصوصی طور پر اشارہ کیا گیا جو جوڑے کی رومانوی زندگی بیان کرتے ہوئے اکثر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔

تاج محل کی تعمیر

ممتاز محل کی وفات کے بعد ان کی یاد میں شاہ جہان نے تاج محل تعمیر کرایا، جہاں ممتاز بیگم کے ہمراہ وہ خود بھی دفن ہیں۔ تاج محل کو فن تعمیر کا اعلٰی نمونہ مانا جاتا ہے۔ بھارت جانے والا کوئی بھی سیاح تاج محل دیکھے بنا واپسی کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا۔ یہ بیالیس ایکڑ پر مشتمل ہے اس میں ایک مسجد اور مہمان خانہ بھی ہے۔ معروف مؤرخ جادو ناتھ سرکار نے اپنی کتاب ’سٹڈیز ان مغل انڈیا‘ میں تذکرہ کیا ہے کہ ممتاز محل نے مرتے وقت شاہ جہان سے تاج محل تعمیر کرانے کا وعدہ لیا تھا۔ اس کی تعمیر 1645 میں مکمل ہوئی تاہم مزید دس سال تک اس کی تزئین و آرائش کا کام ہوتا رہا۔ اس پر تقریباً ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ ہوئے جو آج کے حساب سے پچاس ارب روپے سے زائد بنتے ہیں۔ بیس ہزار مزدوروں کی محنت اس کی تعمیر میں شامل ہے۔ تاج محل کو 1983 میں یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا۔

شیئر: