سندھ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ، کوئٹہ میں اپوزیشن کا دھرنا
وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے منگل کو سندھ حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 22-2021 کے لیے 1477.903 ارب روپے کا خسارے کا بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا۔
بجٹ کی مالیت کا کُل حجم گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں 19.1 فیصد زیادہ ہے، اور وفاق کے مقابلے میں سرکاری ملازمین کے لیے دگنا ریلیف ہے۔
مالی سال 2022-2021 کے بجٹ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے صوبہ سندھ کے گریڈ 1 تا 22 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد ایڈہاک اضافے کا اعلان کیا ہے۔
اگر اس کا موازنہ تحریک انصاف کی حکومت سے کیا جائے تو ان کی جانب سے وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کے ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد ایڈہاک اضافہ کیا گیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے لیے صوبائی سطح پر کوئی اضافی یا نیا ٹیکس بھی تجویز نہیں کیا گیا۔
سندھ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ’صوبہ سندھ کے ملازمین وفاقی حکومت، اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے ملازمین کے مقابلے میں 12 سے 17 فیصد زیادہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔‘
سندھ حکومت نے بتایا کہ ’ 2013، 2015 اور 2020 میں ایڈہاک ریلیف الاؤنس کے ذریعے تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا جو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔‘
علاؤہ ازیں، وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ ’سندھ حکومت کی جانب سے صوبے میں محنت کش، مزدور اور کم آمدنی پیشہ افراد کو ریلیف فراہم کرنے کی غرض سے کم سے کم اجرت کی حد 17,500 سے بڑھا کر 25,000 کر دی گئی ہے۔‘
واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے دوران کم سے کم اجرت کی حد 20 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔
بجٹ تقریر میں مراد علی شاہ نے بتایا کہ ’کم سے کم اجرت کی حد کو بڑھانے کے باعث گریڈ 1 تا 5 کے ملازمین (ماسوائے پولیس کانسٹیبل) کو 1900 روپے تک علیحدہ الاؤنس ملے گا جب تک ان کی تنخواہ 25 ہزار تک نہیں آجاتی۔
واضح رہے کہ تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے کو پورا کرنے کے لیے سندھ حکومت پر 38 ارب روپے کا اضافی بوجھ آئے گا، جبکہ گریڈ 1 تا 5 کے ملازمین کو الاؤنس دینے کا خرچہ 1.3 ارب رہے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ ’آئندہ مالی سال 22-2021 کے لیے مستحق افراد کی معاونت اور معیشت کی بحالی کے سلسلے میں 30.90 ارب روپے کے غریب افراد کے سماجی تحفظ اور معاشی استحکام کے پیکج کو دوبارہ بجٹ میں رکھا گیا ہے۔‘
وفاقی حکومت کی جانب سے جاری نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کی طرز پر حکومت سندھ نے بھی آئندہ مالی سال میں کم لاگت کی ہاؤسنگ کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
مالی سال 22-2021 میں سند میں صحت کی خدمات کے لیے مختص رقم گذشتہ سال کی نسبت 29.5 فیصد اضافے کے ساتھ 172.08 ارب روپے ہے جبکہ صوبے میں وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے 24.73 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس مختص رقم میں ہیلتھ رسک الاؤنس بھی شامل ہے۔
صوبے میں جاری ماس ٹرانزٹ کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے محکمہ ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ کے لیے مختص شدہ رقم کو 15 فیصد اضافے کے بعد 7.64 ارب روپے کردیا گیا ہے، کیونکہ 250 ڈیزل ہائبرڈ الیکٹرک بسیں خریدی جائیں گی۔
دوسری جانب بلوچستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے ارکان صوبائی اسمبلی بجٹ میں نظر انداز کرنے کے خلاف سڑکوں پر آگئے۔ ارکان اسمبلی نے کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کی عمارت کے باہر دھرنا دے دیا۔
حزب اختلاف نے 17 جون کو بلوچستان کو باقی صوبوں سے ملانے والی تمام شاہراہوں کو بند کرنے اور 18 جون کو صوبائی حکومت کو بجٹ پیش کرنے سے روکنے کے لیے اسمبلی کے گھیراؤ کا اعلان بھی کیا ہے۔
بلوچستان اسمبلی کے 65 رکنی ایوان کے 23 ارکان کا تعلق حزب اختلاف کی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے ہے۔
صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جے یو آئی کے ملک سکندر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’تین برسوں سے حزب اختلاف کو ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے، اس بار اس بار ہم نے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومتی ارکان کے حلقوں میں اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں مگر حزب اختلاف کے ارکان کے حلقوں کے عوام سڑک، پانی، تعلیم اور صحت سمیت تمام ترقیاتی منصوبوں سے محروم ہیں۔‘
بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ ’موجودہ حکومت ہر سال 40 ارب روپے تک لیپس تو کرتی ہے مگر حزب اختلاف کے حلقوں کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کرتی اور نہ ہی ان کی تجاویز کو خاطر میں لایا جاتا ہے۔‘
دھرنے میں شریک بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی ثناء اللہ بلوچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تین برسوں میں جو بھی ترقیاتی منصوبے بنے ہیں وہ عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات اور ذاتی مراعات کے لیے بنائے گئے۔‘
’بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں تعلیم کی شرح چھ فیصد اور صحت کی شرح 12 فیصد نیچے گئی ہے۔ بلوچستان میں بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ چار ماہ میں بدامنی کے 180 واقعات ہوئے ہیں، لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔‘