Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں ہنگامہ: کیا ماضی میں بھی ایسا ہوا؟

شہباز شریف کی تقریر کے دوران وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کی قیادت میں حکومتی ارکان نے شور شرابہ کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں  پیر کے روز قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا ہی تھا کہ حکومتی ارکان کی جانب سے شور شرابے اور احتجاج کے باعث اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا۔
شہباز شریف نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور کی قیادت میں حکومتی ارکان نے شور شرابہ شروع کر دیا۔
سپیکر منع کرتے رہے لیکن ان کی کسی نے بھی نہ سنی۔ سپیکر نے اجلاس 20 منٹ کے لیے ملتوی کرکے معاملہ حل کرنے کے لیے تمام پارلیمانی لیڈرز کو چیمبر میں بلایا لیکن بات بن نہ سکی اور اجلاس منگل تک ملتوی کرنا پڑا۔
بہت پرانی بات نہیں ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان خطاب کر رہے تھے کہ حکومتی بینچز سے پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان ان کی طویل تقریر کی وجہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے جملے کستے ہیں۔
جس پر چوہدری نثار علی خان نے اپنی بائیں جانب پہلی قطار میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزرا کی طرف دیکھا اور کہا کہ اگر مجھے خطاب نہیں کرنے دیا جائے گا تو وزیراعظم بھی خطاب نہیں کر سکیں گے اور یہ کہہ کر وہ اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔
حکومتی بینچوں کی جانب سے اپنے ارکان کو خاموش رہنے کی تلقین ہوتی ہے اور یوں چوہدری نثار اپنی تین گھنٹے سے زائد طویل تقریر مکمل کرتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف بائیکاٹ ختم کرکے ایوان میں آتی ہے۔ یہ وہ اجلاس تھا جس میں خواجہ آصف نے اپنا مشہور زمانہ جملہ ’شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے‘ کہا تھا۔
ان کے بعد جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان عین اسی نشست پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں موجودہ اسمبلی میں خواجہ آصف براجمان ہوتے ہیں تو حکومتی بینچوں سے طنزیہ نعرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عمران خان جذباتی ہو کر کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کو لگتا ہے کہ شور مچا کر آپ پارلیمان اور جمہوریت کی خدمت کر رہے ہیں اور آپ کے شور سے میں چپ ہو جاؤں گا تو ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔‘

بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن احتجاج اور شور شرابہ کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جس کے بعد حکومتی بینچوں پر سناٹا چھا جاتا ہے اور عمران خان اپنے پارلیمانی کیریئر کی بہترین تقریر کرتے ہیں جسے اس وقت میڈیا میں خاصا سراہا گیا تھا۔
پارلیمان میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے باہمی احترام کی روایت پاکستانی پارلیمنٹ کے آغاز سے ہی موجود ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو دور کی اسمبلی ہو یا ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ، محمد خان جونیجو دور کی اسمبلی ہو یا 90 کی دہائی میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے یکے بعد دیگرے ادوار احتجاج شور شرابہ تو کسی نہ کسی انداز میں ہوتا ہی رہا ہے لیکن پارلیمان کی تاریخ جاننے والے بتاتے ہیں کہ قائد ایوان یا قائد حزب اختلاف جتنا مرضی اور جب مرضی چاہیں خطاب کرسکتے ہیں اور دونوں جانب سے ان کے احترام کی وجہ سے شور شرابہ نہیں کیا جاتا۔
موجودہ اسمبلی کا آغاز ہی احتجاج سے ہوا۔ اپوزیشن نے نومنتخب وزیراعظم عمران خان کے اولین خطاب میں احتجاج کیا۔ جواب میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خطاب میں حکومتی ارکان نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ تین سال گزر گئے یہ سلسلہ جاری ہے۔
ماضی میں وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن طرح طرح سے احتجاج کرتی رہی ہے لیکن جب قائد حزب اختلاف بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے تو کسی کو یاد بھی نہیں ہوتا تھا کہ وزیر خزانہ کی تقریر میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان باہم دست و گریباں تھے۔

پاکستان کی موجودہ اسمبلی کا آغاز ہی اسمبلی سے ہوا۔ (فوٹو: اے پی پی)

1985 سے پارلیمانی رپورٹنگ سے وابستہ اور نوائے وقت اخبار کے طویل عرصے تک ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہنے والے جاوید صدیق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مجلس شوریٰ اور محمد خان جونیجو کی اسمبلی میں احتجاج ہوتا تھا۔ عابدہ حسین، جاوید ہاشمی، شیخ رشید  اور دیگر بہت شور کرتے تھے لیکن اس دور میں انداز تخاطب بہت ہی مہذب ہوتا تھا۔ 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پی پی پی ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن مجھے نہیں یاد پڑتا کہ بحیثیت قائد حزب اختلاف نواز شریف یا بے نظیر کی بجٹ پر بحث کا آغاز کرنے یا کسی اور تقریر میں کوئی ہنگامہ ہوا ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عموما قائد حزب اختلاف کی تقریر کے بعد حکومت کی جانب سے جوابی تقریر میں جب الزامات لگتے تب گرما گرمی ضرور ہوتی تھی تاہم قائد حزب اختلاف کی تقریر میں کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔‘
طویل عرصے سے روزنامہ جنگ کے لیے پارلیمانی رپورٹنگ کرنے والے رانا غلام قادر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’پارلیمانی روایت رہی کہ ایوان کا ماحول سازگار بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ بجٹ حکومت نے منظور کروانا ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت ابھی تک وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں اپوزیشن کے احتجاج کا بدلہ لے رہی ہے جو مثبت طرز عمل نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ آج کہا گیا کہ وزیر خزانہ کی تقریر میں ہنگامہ ہوا اس لیے قائد حزب اختلاف کو بھی تقریر نہیں کرنے دی جائے گی۔ پارلیمانی روایات میں وزیر خزانہ اور قائد حزب اختلاف کا موازنہ نہیں بنتا۔

شیئر: