پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ’اگر صورت حال خراب ہوئی تو افغانستان 90 کی دہائی میں واپس جاسکتا ہے جس سے پاکستان پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔‘
پیر کے روز قومی ادارہ صحت اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہماری خواہش ہے کہ افغانستان میں امن ہو کیونکہ افغان امن سے ہمارا مفاد جُڑا ہوا ہے۔‘
شاہ محمود قریشی کے مطابق ’اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم نے دنیا کے ہر فورم پر اپنا کردار ادا کیا۔‘
مزید پڑھیں
-
افغانستان میں امریکہ کے دو بڑے فوجی اڈے موجود رہیں گے: پینٹاگونNode ID: 522311
-
پاک افغان نئے تجارتی معاہدے میں رکاوٹیں کیا ہیں؟Node ID: 530636
-
ڈرون کی اجازت دیں گے نہ یہاں امریکی اڈہ قائم ہوگا: شاہ محمودNode ID: 568456
’ترکی میں افغانستان کے موجودہ و سابق وزرائے خارجہ اور امن کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے ملاقات ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ‘میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے ان افغان رہنماؤں کی گفتگو میں تشویش اور فکر دکھائی دی۔‘
پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’افغان امن عمل میں ہونے والی پیش رفت میں ایک جمود کی کیفیت ہے۔‘
’’اس وقت افغانستان سے تقریباً 60 فیصد امریکی افواج کا انخلا ہو چکا ہے، امکان نظر آرہا ہے کہ ستمبر سے بہت پہلے ہی یہ انخلا مکمل ہو جائے گا۔‘
’جس رفتار سے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہورہا ہے اس تیزی سے گفت و شنید آگے نہیں بڑھ رہی۔‘
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’اگر گفتگو میں پیش رفت نہیں ہوتی تو اس کا الزام پاکستان پر ڈالنا ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ مذاکرات کی میز پر افغان بیٹھے ہوئے ہیں۔‘
’افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، ہم افغانستان میں طاقت سے حکومت کے حصول کو قبول نہیں کریں گے۔‘
