Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاک افغان نئے تجارتی معاہدے میں رکاوٹیں کیا ہیں؟

زبیر موتی والا نے کہا کہ بعض پاکستانی اشیا کی افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک ترسیل پر بھاری ٹیکس عائد کیا جاتا ہے (فوٹو: اے پی)
پاکستان اور افغانستان کے مابین ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی مدت فروری 2021 میں ختم ہو رہی ہے۔ اس معاہدے کی تجدید کے لیے گذشتہ ماہ دونوں ممالک میں اعلیٰ سطح پر مذاکرات ہوئے لیکن فوری طور پر نئے معاہدے پر اتفاق نہیں ہو سکا جس کے باعث سرحد کے دونوں طرف تاجروں میں مایوسی کی فضا ہے۔
پاکستان کی وزارت تجارت کے ایک ترجمان کے مطابق دونوں ملک اگلے اجلاس کے مقام اور تاریخ کے تعین کے لیے مشاورت کر رہے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ جنوری کے آخر تک نیا معاہدہ طے پا جائے گا۔
تاہم ٹرانزٹ ٹریڈ میں شامل تاجروں کے مطابق معاہدے میں تاخیر اور اس کی متنازع شقوں پر اصرار سے دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس ایند انڈسٹری کے پاکستان چیپٹر کے صدر زبیر موتی والا نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے نئے معاہدے کے لیے اپنی سفارشات میں پاکستانی تاجروں کو درپیش مسائل کے حل کی نشاندہی کی ہے اور ان سفارشات پر اتفاق ہونا تجارت کے حجم میں اضافے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ بعض پاکستانی اشیا کی افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک ترسیل پر بھاری ٹیکس عائد کیا جاتا ہے جس سے ٹرانزٹ ٹریڈ پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان سے افغانستان کے راستے ازبکستان کو برآمد کیے جانے کینو پر دنیا کی بلند ترین ڈیوٹیز کا اطلاق ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ افغانستان اور دیگر وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ کے ساتھ ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ میں ڈیوٹیز کے حوالے سے ایسے معاہدے کیے جانے چاہیئں جس سے تمام فریقین مستفید ہو سکیں۔‘
جوائنٹ چیمبر آف کامرس نے پاک افغان سرحد پر ایک گیٹ ٹرانزٹ ٹریڈ اور خالی کنٹینرز کو گزارے کے لیے مختص کرنے اور معاہدے میں ثالثی کی شق شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کنٹینرز کی سکیننگ کے جدید نظام اور افغان حدود میں مناسب سکیورٹی کی فراہمی یقینی بنانے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔
ماہرین کے مطابق دونوں ملکوں کے حکام بنیادی طور پر قائل ہیں کہ اس معاہدے کی تجدید ان کی ریاستوں کے فائدے میں ہیں تاہم کچھ امور ایسے ہیں جن پر اتفاق کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔

افغانستان کا مطالبہ ہے کہ نہ صرف افغان ٹرکوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جائے۔ (فوٹو: روئٹرز)

پاکستان اس معاہدے میں توسیع کے ذریعے افغانستان کے راستے وسط ایشیا تک تجارتی ساز و سامان کی بھرپور آمد و رفت چاہتا ہے۔ جب کہ افغانستان کا مطالبہ ہے کہ نہ صرف افغان ٹرکوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جائے بلکہ انڈیا سے اشیا واہگہ کے راستے افغانستان آنے کی اجازت بھی دی جائے۔
یہ ایک ایسا نقطہ ہے جس پر پاکستان کو اعتراض ہے اور پاکستانی حکام کی جانب سے افغانستان پر واضح کیا گیا ہے کہ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت انڈیا کی تجارتی اشیا کو واہگہ کے راستے افغانستان جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ہر طرح سے رابطہ چاہتا ہے۔ ’ہم چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کی اشیا اور گاڑیوں کو منڈیوں  تک مکمل رسائی دیں اور افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک رسائی ہو۔
لیکن عبدالرزاق داؤد کے مطابق ’حالیہ مذاکرات میں انڈیا سے واہگہ کے راستے اشیا کی افغانستان کو ترسیل ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں تھی۔
افغانستان، پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کوآرڈینیشن اتھارٹی کے اجلاس کے موقع پر افغان وزیر تجارت نثار احمد فیضی کا کہنا تھا کہ ’ہم جنوبی ایشیائی مارکیٹ تک پاکستان کے راستے رسائی چاہتے ہیں۔ ہمیں دونوں ممالک کے بہتر مستقبل کے لئے مواقع سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔  بعض معاملات کا حل ہونا ضروری ہے۔ ہمیں آگے بڑھنے کے لئے ان معاملات کو حل کرنا ہوگا۔
افغانستان اپنے محل و قوع کے اعتبار سے چاروں اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے قوانین اور جنیوا کنونشن 1958 کے تحت ایسے ممالک جن کے ساتھ بندرگاہ نہیں ہے کے پڑوسی ممالک پر لازم ہے کہ وہ انہیں تجارت کے لیے اپنے زمینی راستے سے سمندر تک پہنچنے کے لیے سہولت مہیا کریں۔

عبدالرزاق داؤد کے مطابق ’حالیہ مذاکرات میں انڈیا سے واہگہ کے راستے اشیا کی افغانستان کو ترسیل ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں تھی۔‘( فوٹو: روئٹرز)

 اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے مابین دو مارچ 1965 کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے تھے۔ یہ معاہدہ 15 شقوں اور ایک پروٹوکول پر مشتمل تھا اور اس پر پاکستان کے وزیر تجارت وحید الزمان اور افغانستان کے سرور عمر نے دستخط کیے تھے۔
ماہرین کے مطابق 1992 میں پاکستان نے اس معاہدے میں ترمیم کرتے ہوئے سمگل شدہ اشیا کو واپس بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جس سے دونوں ممالک میں اختلافات نے جنم لیا۔
 اکتوبر 2010 میں افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کا نیا معاہدہ عمل میں لایا گیا۔ یہ معاہدہ 58آرٹیکلز اور تین پروٹوکولز پر مشتمل ایک دستاویز تھی۔ اس نئے معاہدے میں این ایل سی کی جگہ بانڈڈ کیرئیر کو سامان تجارت کی اجازت دے دی گئی۔
یہ بانڈڈ کیرئیر نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے وہ ٹرانسپورٹرز ہیں جو اس سامان تجارت کی پاکستان کی بندرگاہوں سے افغانستان تک ترسیل کے ذمے دار ہیں۔ یہ ٹرانسپورٹرز ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور ان کے کروڑوں روپے ایف بی آر کے پاس جمع رہتے ہیں تاکہ مال کے گم ہونے پر ان سے مال کی کسٹم ڈیوٹیاں وصول کی جاسکیں۔
پھر 2010 سے 2020 کے درمیان اس معاہدے کے بارے میں دونوں ملکوں کے بیچ کئی اتار چڑھاو آئے، اور اختلافات سامنے آتے رہے۔
پاکستان نے افغان ٹرکوں کے پاکستان داخلے پر پابندی عائد کی تو 2017 میں افغان صدر اشرف غنی نے بھی پاکستانی ٹرکوں کے افغانستان میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی جس پر دونوں ممالک کے تاجروں میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔
پاکستان نے اپریل 2020 میں پاک افغان مشترکہ تجارتی چیمبر اور دیگر شراکت داروں کی درخواست پر گوادر بندرگاہ کے ذریعے افغان ٹرانزٹ ٹرید کے تحت بلک کارگو کی اجازت دے دی تھی۔
واضح رہے کہ 2010 میں ہونے والے پاک افغان معاہدے میں امریکہ کا کردار نمایاں تھا اور اس پر دستخظ امریکی وزیرخارجہ کی موجودگی میں اسلام آباد میں کیے گیے تھے۔
تاہم اس مرتبہ دونوں پڑوسی ملک اپنے باہمی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے خود مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی وزارت تجارت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگرچہ معاہدے پر اتفاق میں تاخیر ہو رہی ہے تاہم دونوں ملکوں کے وفود ترجیحی تجارت کے معاہدے اور ریلوے کے شعبے میں تعاون کے لیے یادداشت پر دستخط کے لیے رضامند ہو گئے ہیں۔

شیئر: