پاکستان اور افغانستان کے مابین ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی مدت فروری 2021 میں ختم ہو رہی ہے۔ اس معاہدے کی تجدید کے لیے گذشتہ ماہ دونوں ممالک میں اعلیٰ سطح پر مذاکرات ہوئے لیکن فوری طور پر نئے معاہدے پر اتفاق نہیں ہو سکا جس کے باعث سرحد کے دونوں طرف تاجروں میں مایوسی کی فضا ہے۔
پاکستان کی وزارت تجارت کے ایک ترجمان کے مطابق دونوں ملک اگلے اجلاس کے مقام اور تاریخ کے تعین کے لیے مشاورت کر رہے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ جنوری کے آخر تک نیا معاہدہ طے پا جائے گا۔
تاہم ٹرانزٹ ٹریڈ میں شامل تاجروں کے مطابق معاہدے میں تاخیر اور اس کی متنازع شقوں پر اصرار سے دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے نیا قانون ؟
Node ID: 352981
-
گوادر سے افغانستان کے لیے تجارتی سامان کی ترسیل
Node ID: 453091
-
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی واہگہ بارڈر سے بحالی
Node ID: 491931
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس ایند انڈسٹری کے پاکستان چیپٹر کے صدر زبیر موتی والا نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے نئے معاہدے کے لیے اپنی سفارشات میں پاکستانی تاجروں کو درپیش مسائل کے حل کی نشاندہی کی ہے اور ان سفارشات پر اتفاق ہونا تجارت کے حجم میں اضافے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ بعض پاکستانی اشیا کی افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک ترسیل پر بھاری ٹیکس عائد کیا جاتا ہے جس سے ٹرانزٹ ٹریڈ پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان سے افغانستان کے راستے ازبکستان کو برآمد کیے جانے کینو پر دنیا کی بلند ترین ڈیوٹیز کا اطلاق ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ افغانستان اور دیگر وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ کے ساتھ ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ میں ڈیوٹیز کے حوالے سے ایسے معاہدے کیے جانے چاہیئں جس سے تمام فریقین مستفید ہو سکیں۔‘
جوائنٹ چیمبر آف کامرس نے پاک افغان سرحد پر ایک گیٹ ٹرانزٹ ٹریڈ اور خالی کنٹینرز کو گزارے کے لیے مختص کرنے اور معاہدے میں ثالثی کی شق شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کنٹینرز کی سکیننگ کے جدید نظام اور افغان حدود میں مناسب سکیورٹی کی فراہمی یقینی بنانے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔
ماہرین کے مطابق دونوں ملکوں کے حکام بنیادی طور پر قائل ہیں کہ اس معاہدے کی تجدید ان کی ریاستوں کے فائدے میں ہیں تاہم کچھ امور ایسے ہیں جن پر اتفاق کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔

پاکستان اس معاہدے میں توسیع کے ذریعے افغانستان کے راستے وسط ایشیا تک تجارتی ساز و سامان کی بھرپور آمد و رفت چاہتا ہے۔ جب کہ افغانستان کا مطالبہ ہے کہ نہ صرف افغان ٹرکوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جائے بلکہ انڈیا سے اشیا واہگہ کے راستے افغانستان آنے کی اجازت بھی دی جائے۔
یہ ایک ایسا نقطہ ہے جس پر پاکستان کو اعتراض ہے اور پاکستانی حکام کی جانب سے افغانستان پر واضح کیا گیا ہے کہ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت انڈیا کی تجارتی اشیا کو واہگہ کے راستے افغانستان جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ہر طرح سے رابطہ چاہتا ہے۔ ’ہم چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کی اشیا اور گاڑیوں کو منڈیوں تک مکمل رسائی دیں اور افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک رسائی ہو۔‘
لیکن عبدالرزاق داؤد کے مطابق ’حالیہ مذاکرات میں انڈیا سے واہگہ کے راستے اشیا کی افغانستان کو ترسیل ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں تھی۔‘
افغانستان، پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کوآرڈینیشن اتھارٹی کے اجلاس کے موقع پر افغان وزیر تجارت نثار احمد فیضی کا کہنا تھا کہ ’ہم جنوبی ایشیائی مارکیٹ تک پاکستان کے راستے رسائی چاہتے ہیں۔ ہمیں دونوں ممالک کے بہتر مستقبل کے لئے مواقع سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ بعض معاملات کا حل ہونا ضروری ہے۔ ہمیں آگے بڑھنے کے لئے ان معاملات کو حل کرنا ہوگا۔‘
افغانستان اپنے محل و قوع کے اعتبار سے چاروں اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے قوانین اور جنیوا کنونشن 1958 کے تحت ایسے ممالک جن کے ساتھ بندرگاہ نہیں ہے کے پڑوسی ممالک پر لازم ہے کہ وہ انہیں تجارت کے لیے اپنے زمینی راستے سے سمندر تک پہنچنے کے لیے سہولت مہیا کریں۔
