بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ ’پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیئر رہنما سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت طبعی ہے، ملک دشمن عناصر ان کی موت کو غلط رنگ دے رہے ہیں۔ خاندان نے تحقیقات کے لیے رابطہ کیا تو حکومت بھرپور تعاون کرے گی۔‘
ضیاء اللہ لانگو نے یہ وضاحت عثمان کاکڑ کے بیٹے، رشتہ داروں اور پشتونخوا میپ کے بعض رہنماؤں کے اس بیان کے بعد کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ عثمان کاکڑ کی موت کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ انہیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل کیا گیاہے۔
بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ 17 جون کو کوئٹہ کے نجی ہسپتال لایا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
قوم پرست رہنما سینیٹر میر حاصل بزنجو کون تھے؟Node ID: 499971
-
سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کی نماز جنازہ ادا کر دی گئیNode ID: 522241
حالت خراب ہونے پر انہیں 19 جون کو ایئر ایمبولنس کے ذریعے کراچی کے آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ پیر کو انتقال کر گئے۔
18 جون کو پشتونخوامیپ کے رہنما عبدالرحیم زیارتوال نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ’عثمان کاکڑ کو برین ہیمرج حملے کے بعد گرنے سے سر پر زخم لگا تاہم والد کے انتقال کے بعد کراچی کے نجی ہسپتال میں کارکنوں سے خطاب اور میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ نےالزام لگایا کہ ’ان کے والد کو سر پر بھاری چیز مار کر قتل کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات غلط ہے کہ عثمان کاکڑ کو زخم برین ہیمرج کے بعد گرنے سے لگا۔ گرنے کی صورت میں سر کے پچھلے، دائیں یا بائیں جانب چوٹ لگتی ہے مگر عثمان کاکڑ کے سر کے اوپری حصے اور پاؤں دونوں پر زخم لگے ہیں۔‘
عثمان کاکڑ کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ’گھر کی بیٹھک کے جس حصے میں وہ گرے وہاں قالین موجود ہونے کی وجہ سے گرنے کی صورت میں اتنی شدید چوٹ لگنے کا احتمال موجود نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’زبان بندی نہ کرنے پر والد اور باقی گھر والوں کو دھمکی آمیز پیغامات مل رہے تھے جس کا ذکر ان کے والد نے سینیٹ میں اپنی آخری تقریر میں بھی کیا۔‘
بیٹے اور دیگر رشتہ داروں کے بیانات کے بعد پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے کئی سینیئر رہنماؤں اور سینیٹ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے بھی عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

پشتونخوامیپ نے اپنے ابتدائی بیان میں انہیں شہید کا خطاب دیا اور سات روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ مرکزی انجمن تاجران بلوچستان نے بدھ کو کوئٹہ میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اپیل کی ہے۔
عثمان کاکڑ کی میت کراچی سے قافلے کی صورت میں سڑک کے راستے کوئٹہ منتقلی کے دوران حب، وندر، بیلہ، وڈھ، خضدار، سوراب، قلات، مستونگ اور کوئٹہ سمیت دیگر مقامات پر مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے قافلے کا استقبال کیا اور میت لے جانے والی ایمبولنس پر پھول کی پتیاں نچھاور کیں۔
پشتونخوامیپ کے سینیئر رہنماء عبدالرؤف لالہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عثمان کاکڑ کے لواحقین نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے ان کی تحقیقات ضروری ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سابق سینیٹر کو بدھ کو آبائی علاقے مسلم باغ ضلع قلعہ سیف اللہ میں سپرد خاک کیا جائےگا۔ جنازے اور تدفین کے بعد پارٹی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ڈاکٹروں کے بیانات کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔‘

دوسری جانب وزیر داخلہ بلوچستان ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ ’عثمان کاکڑ کے خاندان میں سے کسی نے اب تک حکومت یا پولیس سے تحقیقات کے لیے رابطہ نہیں کیا اگر انہوں نے رابطہ کیا تو حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔‘
کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں ضیا لانگو کا کہنا تھا کہ ’عثمان کاکڑ مدبر انسان اور عظیم سیاست دان تھے۔ انہوں نے بلوچستان کے عوام کی ہر سطح پر ترجمانی کی، بلوچستان حکومت ان کے خاندان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔‘
’بلوچستان حکومت نے متاثرہ خاندان کو علاج معالجے اور کراچی منتقلی کے لیے ہیلی کاپٹر اور طیارے سمیت ہر ممکن تعاون کی پیش کش کی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عثمان کاکڑ کی موت پر ملک دشمن عناصر غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور معاملے کو غلط رنگ دے رہے ہیں۔‘
اس موقع پر پارلیمانی سیکریٹری صحت ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے کہا کہ ’کراچی کے جناح ہسپتال کے ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی واضح کیا گیا کہ عثمان کاکڑ کے جسم پر تشدد کے نشانات موجود نہیں اور موت کی وجہ طبعی ہے۔‘
