ٹک ٹاک قواعد کی خلاف ورزی میں پاکستان دوسرے نمبر پر
ٹک ٹاک قواعد کی خلاف ورزی میں پاکستان دوسرے نمبر پر
بدھ 23 جون 2021 9:30
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
ٹک ٹاک پاکستان میں نوجوانوں کا پسندیدہ ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے (فوٹو اے ایف پی)
اسلام آباد کی رہائشی فضہ شعبان آبپارہ مارکیٹ میں شاپنگ کر رہی تھیں کہ اچانک ان کی نظر ایک خوبصورت لڑکی پر پڑی جو وہاں زمین پر لگے ایک سٹال پر بیٹھی سٹال کے بزرگ مالک سے بات کر رہی تھیں۔ کمیرا آن تھا جسے ایک اور لڑکا آپریٹ کر رہا تھا۔
لڑکی نےاچانک پرس سے پانچ ہزار روپے کا نوٹ نکالا اور بوڑھے بابا کو دے دیا۔ پھر کیمرے میں دیکھ کر مسکرتے ہوئے بولیں کہ ’یہ میرا آج کا اچھا کام ہے، ہمیں ان غریبوں کی مدد کرنا چاہیے۔‘
تاہم فضہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب کیمرا بند ہوتے ہی اس لڑکی نے بابا جی سے پانچ ہزار کا نوٹ واپس لیا اور کیمرا مین کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئیں۔
سٹال پر بیٹھے بوڑھے بابا شرمندہ سے ہو کر رہ گئے۔ فضہ شعبان کے مطابق وہ خاتون ٹک ٹاک ویڈیو پر جعلی نیکی دکھا رہی تھیں۔
جو کچھ فضہ نے دیکھا وہ پھر بھی ایک بے ضرر سے شرارت تھی۔ تاہم یہ سلسلہ بعض اوقات شرارت سے بڑھ کر سماجی مسائل اور حتی کہ جرائم تک پھیل رہا ہے۔
17 جون کو پنجاب پولیس نے خان علی نامی شخص کو گرفتار کیا جو خواتین کو پرینک کے نام پر ہراساں کرتا تھا۔ ایک ویڈیو میں اسے ایک خاتون کو کندھے سے چھو کر اس کے ساتھ مذاق کرتے بھی دیکھا گیا، جبکہ ایک اور ویڈیو میں وہ ایک ماں بیٹی کو روک کر دوپٹہ پہننے کی ہدایت کرتا نظر آ رہا تھا۔
پولیس کی حراست میں اپنے بیان میں ٹک ٹاکر اور یوٹیوبر خان علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے فالورز بڑھانے کے لیے یہ ویڈیو بنائی تھی، جس پر وہ معافی مانگتے ہیں۔
اس طرح کے مناظر اب عام ہوتے جا رہے ہیں۔ آج کل آپ گھر سے باہر جس پارک، مارکیٹ یا عوامی مقام پر جائیں آپ کو ہاتھ میں موبائل یا کیمرا اٹھائے سجے سنورے نوجوان ضرور ملیں گے جو سیلفیاں یا ویڈیو بناتے نظر آتے ہیں۔ یہ نوجوان کسی فلم کی شوٹنگ نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ویڈیو شیئرنگ سروس ٹک ٹاک پر اپنے فن کے جوہر دکھا رہے ہوتے ہیں۔
ٹک ٹاک پاکستان میں نوجوانوں کا پسندیدہ ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے، کیونکہ اس کی چھوٹی چھوٹی ویڈیوز نہ صرف دیکھنے والوں کو کم وقت میں تفریح فراہم کرتی ہیں بلکہ ٹک ٹاک کے ذریعے کئی نئے ڈرامہ اور فلم سٹارز بھی سامنے آ رہے ہیں جن میں پاکستانی سٹار جنت مرزا بھی شامل ہیں جن کو ٹک ٹاک سے شہرت ملی اور وہ شوبز میں داخل ہو گئیں۔
تاہم ٹک ٹاک جہاں نوجوانوں کو تفریح کے مواقع فراہم کرتا ہے وہیں اس کے بعض صارفین سماجی زندگی میں مداخلت کر کے پرینک یا مذاق کے نام پر عام لوگوں کی زندگی میں مداخلت بھی کرتے نظر آتے ہیں، اور یہ ایک بڑا سماجی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے افراد ٹک ٹاک پر پیش کیے گئے ’غیر اخلاقی‘ مواد سے نئی نسل کی خرابی کی شکایت بھی کرتے ہیں۔
پاکستان نے غیر اخلاقی اور غیر مہذب مواد کے باعث دو بارہ ٹک ٹاک پر پابندی بھی عائد کی مگر ویڈیو شیئرنگ سروس کی جانب سے مواد بہتر کرنے کی یقین دہانی کے بعد اسے بحال کر دیا گیا۔
ٹک ٹاک اور جرائم
والدین اور عوام کی جانب سے ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد کی شکایت پر تو پی ٹی اے کی جانب سے ایکشن لیا گیا تھا۔ تاہم ٹاک ٹاک بنانے والے بعض افراد کے جرائم میں ملوث ہونے کے واقعات سامنے آنے پر پولیس نے بھی متعدد بار ایکشن لیا ہے۔
اس سال مئی میں بازار میں جانے والی عورتوں کی بلا اجازت ٹک ٹاک بنانے پر نوید جانی نامی شخص کو پنجاب کے ضلع قصور کی پولیس نے گرفتار کیا۔
نوید جانی نے مبینہ طور پر بازار کا راستہ بلاک کر کے اپنی ویڈیو کے ساتھ لڑکیوں کی بھی ویڈیو بنائی جس پر ڈی پی او قصور عمران کشور نے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو پر ازخود نوٹس لیا۔ اس سے قبل اسی ٹک ٹاکر کے خلاف پہلے بھی ڈی ایچ کیو ہسپتال کے اندر مریضوں کے بیڈ اور ہسپتال کو ٹک ٹاک میں استعمال کرنے کے جرم میں مقدمہ درج ہوا تھا۔
اس سال جنوری میں خود کو پولیس اہلکار ظاہر کر کے پولیس یونیفارم میں ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے والے میاں بیوی انیزہ گوہر اور محمد بلال کو راولپنڈی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
اسی سال جنوری میں لاہور میں ریلوے پولیس نے مسافر ٹرین کے سامنے اور ریلوے پھاٹک بند کرکے ٹک ٹاک بنانے کے الزام میں دو نوجوانوں کو گرفتار کر لیا تھا۔
سینیئر سپرٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ریلوے ملک عتیق نے ریلوے تنصیبات پر ٹک ٹاک بنانے کے الزام میں دو نوجوانوں اسرار گوندل اور زوہیب کو ہتھکڑیاں لگا کر لاہور میں میڈیا کے سامنے پیش کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ملزموں نے رائے ونڈ اور جیابگا ریلوے سٹیشنوں کے درمیان ریلوے پھاٹک کو غیر قانونی طورپر بند کیا اور مسافر ٹرین کے سامنے کھڑے ہو کر ٹک ٹاک بنائی اور ویڈیو سوشل میڈیا پراَپ لوڈ کر دی۔
ملزمان کی جانب سے بنائی جانے والی ٹک ٹاک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص اپنے دوست سے کہتا ہے کہ ’جب تک مجھے کرایہ نہیں ملتا تب تک میں پھاٹک بند رکھوں گا۔‘ جس کے بعد اس کا دوست ریلوے ٹریک کا پھاٹک بند کر دیتا ہے۔
اس سال مئی میں لاہور میں پولس نے سیشن کورٹ میں ٹک ٹاک ویڈیو بنانے والے شخص کو گرفتار کرلیا۔ گرفتار کیے گئے شخص کی شناخت رحمٰن علی کے نام سے ہوئی ہے جو اقدام قتل کے مشتبہ ملزم کے ساتھ ویڈیو بنانے کی کوشش کررہا تھا۔
اس سال فروری میں کراچی پولیس نے گارڈن کے علاقے میں خاتون سمیت چار ٹک ٹاکرز کے قتل میں ایک اور خاتون ٹک ٹاکر سویرا کو گرفتار کرلیا۔
اسی ماہ ایک نوجوان مجاہد علی کو کراچی پولیس نے ٹک ٹاک پر ناجائز اسلحہ کی تشہیر کرنے پر گرفتار کر لیا۔
پولیس کا موقف
ٹک ٹاک ایپلی کیشن اور جرائم کے تعلق کے حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر پنجاب پولیس کے سرگودھا میں تعینات ڈی آئی جی اشفاق خان نے بتایا کہ ٹک ٹاک یوں تو اچھا پلیٹ فارم ہے جس پر لوگوں کو اپنی صلاحیت دکھانے کا موقع ملتا ہے۔ تاہم جب ٹاک ٹاک بنانے والے دوسروں کی آزادی یا زندگی کو متاثر کرتے ہیں تو پولیس کو اس پر ایکشن لینا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصے میں ایسی شکایات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یوں تو ٹک ٹاک پر بننے والے مواد کے حوالے سے شکایت پیکا قوانین کے تحت ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ دیکھتا ہے، لیکن جب ایسے جرم کا ارتکاب ہو جو قابل دست اندازی پولیس ہو تو اس پر ایکشن لیا جاتا ہے۔
اشفاق خان نے بتایا کہ پولیس ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا کو خود بھی مانیٹر کرتی ہے تاکہ جرائم پیشہ افراد کا پتا لگایا جا سکے اور اس کی بنا پر کئی بار غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اشفاق خان کے مطابق یہ پریکٹس دنیا بھر میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنائے ہوئے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کو ہر طریقے سے پکڑ میں لایا جا سکے۔
موبائل فون اور انٹرنیٹ کی عام دستیابی کے بعد ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق ادارے کے سائبر کرائم ونگ کے پاس شکایات کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ تاہم اسے وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر سائبر کرائمز کے حوالے سے پولیس کو بھی اختیارات دے دیے جائیں تو ملک بھر میں پھیلے 12 سو سے زائد پولیس سٹیشن ان جرائم پر قابو پانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
ٹک ٹاک قواعد کی خلاف ورزی میں پاکستان دوسرے نمبر پر
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ٹک ٹاک کی ایک ترجمان نے بتایا کہ ٹک ٹک کے لیے اپنی کمیونٹی کا تحفظ پہلی ترجیح ہے اور ہم ایسے مواد کی اجازت نہیں دیتے جس سے خطرناک رویے کی حوصلہ افزائی ہو یا اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے جس سے کوئی زخمی ہو جائے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ پھر خلاف ورزی کرنے والے پاکستانی اکاؤنٹس کے حوالے سے کیا تادیبی کارروائی کی جاتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ٹک ٹاک کی ہدایات کی خلاف ورزی پر جن ممالک سے سب سے زیادہ مواد ہٹایا گیا ہے ان میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ گویا ٹک ٹاک ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک میں دوسرا نمبر پاکستان کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2020 کی ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے صرف چھ ماہ میں 82 لاکھ 15 ہزار سے زائد ویڈیوز کو ہٹایا گیا تھا۔ امریکہ پہلے نمبر پر تھا جہاں ایک کروڑ 17 لاکھ ویڈیوز کو ہٹایا گیا تھا۔
ٹک ٹک ترجمان نے بتایا کہ ’ہماری کمیونٹی گائیڈ لائنز میں کسی کو شرمسار کرنے، ہراساں کرنے اور تضحیک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تضحیک آمیز مواد یا رویے سے شدید نفسیاتی دباؤ پیدا ہو سکتا ہے اس لیے ایسا مواد ہمارے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جاتا ہے۔‘
ترجمان کے مطابق نوجوانوں اور فیملیز کے لیے ٹک ٹاک تحفظ کا موثر اور مضبوط نظام قائم ہے اور اسے باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔
ٹک ٹاک پر فراڈ اور جعلی ویڈیوز کے حوالے سے سوال پر ترجمان کا کہنا تھا کہ ہماری گائیڈ لائن اس کی اجازت نہیں دیتیں اور فیک نیوز اور مِس انفارمیشن کے خاتمے کے لیے ٹک ٹاک سیکورٹی کنٹرولز اور انسانی جائزے جیسے اقدامات سے اس بات کو مشکل بناتا ہے کہ غلط خبروں یا فراڈ کو پھیلایا جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ ہٹائے گئے مواد میں جنسی اور عریانی پر مبنی مواد 20 فیصد، غیر قانونی سرگرمیوں پر 18 فیصد اور ہراساں کرنے اور تضحیک پر ساڑھے چھ فیصد تک پایا گیا تھا۔
ہمیں ہراساں کرنے یا پرینک کی شکایت نہیں ملی: پی ٹی اے
اس حوالے سے اردو نیوز نے پاکستان میں انٹرنیٹ کی ریگولیشن کرنے والے ادارے پاکستان ’ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی‘ (پی ٹی اے) سے پوچھا کہ اب تک اس پر کیا ایکشن ہوا ہے تو پی ٹی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ابھی تک اتھارٹی کو ہراساں کرنے یا پرینک کرنے کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں ملی اس لیے اس پر کسی مواد کو بلاک نہیں کیا گیا۔
اس سوال پر کہ کیا ایسے ٹک ٹاکر جو ویڈیو بناتے وقت دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرتے ہیں ان کے خلاف کیا ایکشن ہو سکتا ہے تو پی ٹی اے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ایف آئی اے کا اختیار ہے کہ ایسے کیسز پر تحقیق کرے اور ایکشن لے۔ ہاں اگر ایف آئی اے کی سفارش آئے تو پی ٹی اے ایسا مواد بلاک کر سکتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک ایسے مواد کی بھی کوئی شکایت نہیں آئی اس لیے اس پر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔
چند ماہ قبل بھی پی ٹی اے نے ٹک ٹاک کی بحالی کے اعلان کے ساتھ جاری اعلامیے میں بتایا تھا کہ ٹک ٹاک کی اعلیٰ انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں ٹک ٹاک نے یقین دہانی کروائی ہے کہ سوشل میڈیا ایپ پر نشر ہونے والے مواد میں پاکستان کے قوانین اور معاشرے کی اخلاقیات کے مطابق ترمیم کی جائے گی۔
اعلامیے کے مطابق ٹک ٹاک کی انتظامیہ نے یہ بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ جو صارفین پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مواد اپ لوڈ کریں گے، انہیں ٹک ٹاک سے بلاک کر دیا جائے گا۔
ٹک ٹاکرز کا موقف
اس حوالے سے ٹک ٹاک بنانے والے صارفین کا موقف جاننے کے لیے اردو نیوز نے معروف ٹک ٹاکر علیمہ فاطمہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’تمام لوگ ایسے نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ یہاں پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے گانا، پینٹنگ، آرٹ ، ڈانس وغیرہ مگر کچھ لوگ مشہوری کی خاطر پاگل ہو جاتے ہیں۔‘
’ایسے لوگ نہ اپنے بارے میں سوچتے ہیں ناں دوسروں کے بارے میں۔ انہیں صرف فالورز بڑھانے سے غرض ہوتی ہے تاکہ وہ راتوں رات مشہور ہو جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک اور حکومتی اداروں کو اس سلسلے میں مانیٹرنگ بڑھانی چاہیے۔‘
لاہور میں خواتین کو ہراساں کرنے پر گرفتار ہونے والے ٹک ٹاکر خان علی نے بھی اپنے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ وہ فالورز بڑھانے کے لیے ایسی حرکتیں کرتے تھے۔
اس سے قبل اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مشہور ٹک ٹاکر حریم شاہ نے کہا تھا کہ کچھ لوگ ٹک ٹاک پر نامناسب مواد پھیلا رہے ہیں ان لوگوں کو بین کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ٹک ٹاک پر آپ کو ہر طرح کے لوگ ملیں گے جیسے ہر جگہ اچھے برے لوگ ہوتے ہیں ویسے ہی یہاں بھی اچھے اور برے لوگ موجود ہیں۔‘
’یہاں ایسے لوگ بھی ملیں گے جو ایسی چیزیں تخلیق کر رہے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر عقل حیران رہ جائے۔‘
ٹک ٹاک سٹار صندل خٹک نے بھی کہا تھا کہ اس ایپ کا جو لوگ غلط استعمال کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور غیر اخلاقی مواد کو ختم کیا جائے۔
ٹک ٹاکر حسن اقبال نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک میں انٹرٹینمنٹ ہے ہی نہیں اگر ایسی ایپس کو بند کر دیا جائے گا تو پیچھے کیا بچے گا؟‘
حسن اقبال کہتے ہیں کہ ’اب گلی محلوں میں لڑکے کرکٹ کھیلتے ہیں اور اگر کھڑکیوں کے اگر شیشے ٹوٹتے ہیں تو اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ کرکٹ کو ہی بند کر دیا جائے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ٹک ٹاک کا غلط استعمال ہو رہا ہے تو یہ طے کر لینا چاہیے کہ اس ایپ کو استعمال کرنے کے لیے کیا حدود ہیں۔