Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی اے کی ٹک ٹاک ایپلی کیشن پر پابندی لگانے کی ہدایت

عدالت کے مطابق ٹک ٹاک ویڈیوز سے معاشرے میں فحاشی پھیل رہی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر ٹک ٹاک ایپلی کیشن پر پابندی عائد کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصررشید خان نے ٹک ٹاک کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ٹک ٹاک پر ڈالی جانے والی ویڈیوز ہمارے معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔‘
چیف جسٹس قیصررشید خان کا کہنا تھا کہ ’ٹک ٹاک ویڈیوز سے معاشرے میں فحاشی پھیل رہی ہے، اس کو فوری طورپر بند کیا جائے۔‘
درخواست گزار وکیل نازش مظفر نے اردو نیوز کو بتایا کہ عدالت نے پی ٹی اے کو ٹک ٹاک فوری طور بند کرنے کےاحکامات جاری کیے ہیں۔
نازش مظفر کا کہنا تھا کہ ’عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر دو ہفتوں کے اندر ٹک ٹاک انتظامیہ پی ٹی اے کی درخواست پر عمل نہیں کرتی تو ایپ کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔‘ 
درخواست گزار وکیل نازش مظفر کے مطابق ’پی ٹی اے نے ٹک ٹاک کی جانب سے مواد کو سنسر کرنے کی رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی جو عدالت نے ناکافی قرار دی ہے۔‘
نازش مظفر نے مزید بتایا کہ ’عدالت نے کہا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے مواد کی مانیٹرنگ کے باوجود ایپ پر ایسی ویڈیوز موجود ہیں جس سے معاشرے میں فحاشی پھیلائی جارہی ہے۔‘

 ٹک ٹاک فحش مواد نہ نشر کرنے کی شرط پر بحال کیا گیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

چیف جسٹس نے عدالت میں پیش ڈی جی پاکستان ٹیلی کام اٹھارٹی (پی ٹی اے) سے استفسار کیا کہ کیا ٹک ٹاک ایپلی کیشن بند کرنے سے نقصان ہوگا؟
جس پر ڈی جی پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک کے عہدیداروں کو درخواست دی ہے، لیکن ابھی مثبت جواب نہیں آیا۔ 
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’جب تک ٹک ٹاک کے عہدیدار آپ کی درخواست پر عمل نہیں کرتے، غیر اخلاقی مواد روکنے کے لیے تعاون نہیں کرتے، تب تک ٹک ٹاک بند رکھا جائے۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک سے سب سے زیادہ نواجون متاثر ہو رہے ہیں، ٹک ٹاک کے بارے میں ملنے والی رپورٹس افسوسناک ہیں۔ 
ڈی جی پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا کہ ٹک ٹاک کا ہیڈ آفس سنگاپور میں ہے، پاکستان میں اس کا کوئی دفتر نہیں ہے لیکن تمام مواد دبئی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
ڈی جی پی ٹی اے، ڈپٹی اٹارنی جنرل اور درخواست گزار وکیل نازش مظفر اور سارہ علی بھی عدالت میں پیش ہوئی تھیں۔ 

شیئر: