اٹل بہاری واجپئی نے اندرا گاندھی کو شجاعت کی دیوی درگا سے تعبیر کیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
بات ذرا پرانی ہے۔
اندرا گاندھی انڈیا کی وزیراعظم تھیں، پاکستان کے ساتھ سن اکہتر کی جنگ کو چار سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے، لیکن انہوں نے اتنے مختصر عرصے میں ہی ایک پوری زندگی کا سفر طے کر لیا تھا۔
پاکستان کے ساتھ جنگ ہوئی تو اٹل بہاری واجپائی نے، جو اس وقت حزب اختلاف جن سنگھ کے لیڈر ہوا کرتے تھے ( اسی پارٹی نے آگے چل کر بی جے پی کی شکل اختیار کی) پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر انہیں شجاعت کی دیوی دُرگا سے تعبیر کیا تھا۔ یوں ہیرو سے ولن بن جانا آسان نہیں ہوتا۔
چار سال بعد خود واجپائی، لال کرشن ایڈوانی، جارج فرنانڈس اور اس دور کے سب سے قد آور سوشلسٹ رہنما جے پرکاش نارائن سمیت ملک میں اپوزیشن کی تقریباً پوری سیاسی قیادت جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھی۔
سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی، پریس سخت سینسرشپ کا شکار تھی، وہ تمام بنیادی حقوق معطل کر دیے گئے تھے جن کی ضمانت دستور ہند میں دی گئی تھی، پارلیمنٹ ایک ربر سٹیمپ میں تبدیل ہوگئی، بس یوں سمجھیے کہ انڈیا نے جمہوریت سے آمریت کا سفر طے کر لیا تھا۔
لیکن کیوں؟
تاریخ بھی بڑی عجیب چیز ہے، پڑھ کر لگتا ہے کہ اچھا کبھی ایسا بھی ہوتا تھا۔
کہانی 1971 میں شروع ہوتی ہے۔ اندرا گاندھی کے الیکشن کو ان کے مخالف امیدوار راج نارائن نے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ اندرا گاندھی ملک کی واحد وزیراعظم ہیں جو کسی کیس میں عدالت میں پیش ہوئیں وہ بھی اپنے ہی شہر الہ آباد میں جہاں وہ پلی بڑھی تھیں۔
لمبی سماعت کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے ان کا الیکشن کالعدم قرار دے دیا کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں سرکاری مشینری کا استعمال کیا تھا۔ آج کل کے سٹینڈرڈ سے الزامات کی نوعیت زیادہ سنگین نہیں تھی، بہت سے لوگوں کے ذہن میں تو شاید فوراً ہی یہ سوال آئے کہ سرکاری مشینری کا استعمال وزیراعظم نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟
لیکن جیسا ہم نے پہلے کہا وہ مختلف دور تھا۔ ایک ہائی کورٹ نے ایک انتہائی طاقتور وزیراعظم کے خلاف فیصلہ سنایا۔ اندرا گاندھی نےاس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
اس پس منظر میں جے پرکاش نارائن نے دلی میں ایک بہت بڑی ریلی کی اور اس میں انقلابی تقریریں ہوئیں۔ اندرا گاندھی کے لیے وزیراعظم کے عہدے پر قائم رہنا مشکل ہوتا جارہا تھا لہٰذا انہوں نے پارلیمنٹ اور اپنی کابینہ کو اعتماد میں لیے بغیر 25 جون 1975 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔
راتوں رات ملک کی اعلیٰ ترین قیادت کو گرفتار کر لیا گیا، اظہار خیال کی آزادی خوابوں میں بھی باقی نہیں رہی، جس نے حکومت کے خلاف زبان کھولی اسے جیل بھیجا جانے لگا اور جمہوریت صرف آئین کے پننوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔
اندرا گاندھی کا کہنا تھا کہ ’ملک کو غیر ملکی اور داخلی طاقتوں سے بچانے کے لیے ایمرجنسی لگائی گئی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اقتدار میں رہنا چاہتی تھیں۔‘
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ 21 ماہ کی ایمرجنسی کے دوران ملک میں بہت زیادتیاں ہوئیں، لیکن ان 21 ماہ نے ملک کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
فروری 1977 میں اندرا گاندھی نے آخر کار ایمرجنسی ختم کرنے کا اعلان کیا اور مارچ میں جب الیکشن ہوئے تو عوام نے کانگریس کو ایمرجنسی کا رپورٹ کارڈ تھما دیا اور آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ملک میں غیر کانگریسی جماعتوں کی حکومت بنی۔
اندرا گاندھی خود بھی الیکشن ہاریں (انہیں راج نارائن نے ہی ہرایا) اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی بھی جنہیں ایمرجنسی کی زیادتیوں کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار مانا جاتا ہے۔
ایمرجنسی کے دوران اور کیا کچھ ہوا یہ تو لمبی کہانی ہے، وہ تفصیل پھر کبھی، لیکن اس کے بعد کی کہانی بھی اتنی ہی دلچسپ ہے اور اس سے بہت سے سبق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ووٹر سیاست دانوں کو بہت جلدی معاف کر دیتے ہیں۔ انہیں شاید لگتا ہے کہ ان بے چاروں سے زیادہ امیدیں رکھنی ہی نہیں چاہییں۔ اتنا بڑا ملک ہے وہ کس کس کی خبر رکھیں؟
وزیراعظم مورار جی دیسائی اور بعد میں چوہدری چرن سنگھ کی قیادت میں جنتا پارٹی کی ’کھچڑی سرکار‘ تین سال ہی چل سکی۔ شاید وجہ یہ تھی کہ اس میں بڑے لیڈر بہت زیادہ تھے۔
اسے کھچڑی حکومت اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس میں ہر سیاسی نظریے کے لوگ موجود تھے، واجپائی اور ایڈوانی سے لے کر مورار جی دیسائی تک، ایسے رہنما جن میں کوئی سیاسی نظریاتی مماثلت نہیں تھی۔
خیر تین سال بعد پھر الیکشن ہوئے اور اندرا گاندھی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آگئیں اور 1984 تک وزیراعظم رہیں جب انہیں گولڈن ٹیمپل میں آپریشن بلو سٹار کے تحت فوجی کارروائی سے ناراض ان کے سکھ سکیورٹی گارڈز نے ہلاک کر دیا۔
یہ واحد موقع تھا جب ملک میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، لیکن تین سال میں ہی لوگوں کو لگنے لگا کہ انڈیا کو اندرا گاندھی جیسی مضبوط لیڈر ہی سنبھال سکتی ہیں۔ آج تقریباً یہی بات وزیراعظم نریندر مودی کے لیے کہی جاتی ہے۔ بڑی تعداد میں ووٹروں کو لگتا ہے کہ نریندر مودی انڈیا کا حلیہ بدل رہے ہیں اور یہ کام صرف وہ ہی کرسکتے ہیں۔ ایمرجنسی کے بعد کے تین برسوں کی طرح آج بھی انڈیا میں اپوزیشن تقریباً مکمل طور پر بکھری ہوئی ہے، پھر لیڈر زیادہ ہیں اور ان کے پیچھے چلنے والے لوگ کم۔
اس لیے جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ کورونا وائرس کے دوران حکومت کی نااہلی کا خمیازہ نریندر مودی کو بھگتنا پڑے گا، انہیں تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے۔ اب بھر تیزی سے ٹیکے لگائے جارہے ہیں، دو تین ماہ میں ٹیکوں کی سپلائی اتنی ہوجائے گی کہ آپ آرام سے ٹہلتے ہوئے جائیں گے اور ٹیکہ لگوا کر آجائیں گے۔
بس لوگوں کو یہ بات یاد رہے گی اور آکسیجن اور دواؤں کی کمی سے ہونے والی تباہی ایک دھندلی سی یاد بن کر رہ جائے گی۔