قسمت نے ساتھ نہیں دیا ورنہ لال کرشن اڈوانی ہندوستان کے وزیراعظم ضرور بنتے، اور شاید ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھتے۔
آپ ان کی سیاست اور ان کے نظریات سے اتفاق بھلے ہی نہ کریں لیکن یہ سچ ہے کہ انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کو اقتدار تک انہوں نے پہنچایا تھا۔
چلیے مانا دوسرے لوگوں کا بھی تھوڑا بہت یوگدان تھا، لیکن اصل معمار وہی تھے۔ اگر وہ بابری مسجد رام جنم بھومی کا مسئلہ نہ اٹھاتے اور معاشرے کے تانے بانے اور ملک کی سیاست پر اس کے مضمرات کی پرواہ کیے بغیر مندر کی تعمیر کے لیے رتھ یاترا نہ نکالتے تو بی جے پی کا انتخابی نشان کمل اب بھی کہیں کیچڑ میں ہی گھل رہا ہوتا۔
مزید پڑھیں
-
بابری مسجد: فیصلہ ہندوؤں کے حق میںNode ID: 442386
-
اس وقت 'ملک کا دفاع سب سے اہم'،رام مندر کی تعمیر مؤخرNode ID: 486421
تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ جیسے کبھی اندرا گاندھی کے لیے یہ نعرہ دیا گیا تھا کہ ’اندرا از انڈیا اینڈ انڈیا از اندرا‘ بس ویسے ہی رام مندر کی تعمیر سے اڈوانی کی زندگی کا سیاسی گراف جڑا ہوا ہے۔
لیکن تیس سال کے انتظار کے بعد اب مندر کی تعمیر تو شروع ہوگئی ہے لیکن اس تقریب میں مدعو کیے جانے والوں کی فہرست میں سابق نائب وزیراعظم اور بی جے پی کے بانی اور سابق صدر کا نام شامل نہیں تھا۔
ظاہر ہے کہ تجزیوں کی کمی نہیں ہے۔ کسی نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نہیں چاہتے ہوں گے کہ اس موقع پر، جب پورے ملک کی نگاہیں ایودھیا پر ٹکی ہوں گی، وہ کسی دوسرے رہنما کے ساتھ اٹینشن شیئر کریں۔
کسی اور کا خیال تھا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی تعریف کرنے کے بعد اڈوانی کا سیاسی کیریئر ختم ہوگیا تھا اور تحریک کا آغاز کرنے والے سے زیادہ تحریک کو انجام تک پہنچانے والے کو یاد رکھا جاتا ہے۔
لیکن سب سے اچھا عذر یہ تھا کہ اڈوانی کی عمر بانوے برس ہے، بہت بزرگ ہوگئے ہیں، اس لیے انہیں کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لہٰذا وہ اس تقریب میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ شرکت کریں گے۔

دعوت نامہ تو ہمارے پاس بھی نہیں تھا، لیکن ہم نے ٹی وی چلانا زیادہ آسان سمجھا۔ شاید مسٹر اڈوانی نے بھی ایسا ہی کیا ہوگا اور سوچا ہوگا کہ ان کے پرانے ساتھی ان کی صحت کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔
اگر دعوت نامہ بھیج دیتے اور پریس کو خبر ہوجاتی تو نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑتا، کس کس کو جواب دیتے کہ ایسے ماحول میں سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
ایودھیا میں اس مقام پر مندر تعمیر ہو رہا ہے جہاں کبھی بابری مسجد ہوا کرتی تھی۔ مسجد کی مسماری کے کیس میں مسٹر اڈوانی بھی اصل ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں اور آج کل عدالت کی کارروائی میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے شرکت کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے بہت فائدے ہیں۔
ایودھیا میں عالیشان مندر تو اب اگلے پارلیمانی انتخابات سے پہلے تیار ہو جائے گا، اس بات کو تو آپ تقریباً طے مانیے اور موجودہ سیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے اس بات کو بھی طے مانیے کہ اس کا افتتاح بھی نریندر مودی ہی کریں گے، اور جب مسٹر اڈوانی اس کے بارے میں سوچتے ہوں گے تو انہیں پاکستان کا وہ دورہ ضرور یاد آتا ہوگا جس نے ان کا سیاسی سفر اچانک ختم کر دیا تھا۔
وہ 2005 میں پاکستان گئے تھے اور کراچی میں، جو کبھی ان کا اپنا شہر ہوا کرتا تھا، جب وہ مزار قائد پر خراج عقیدت پیش کر رہے تھے تو انہوں نے لکھا تھا کہ 'ایسے تو بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ پر کبھی نہ مٹنے والی چھاپ چھوڑتے ہیں لیکن ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو خود تاریخ رقم کرتے ہیں۔'
وہ واپس لوٹے تو انہیں بی جے پی کے صدر کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی ان کا وزیراعظم بننے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔
