موجودہ افغان حکومت سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں: افغان طالبان
موجودہ افغان حکومت سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں: افغان طالبان
جمعرات 15 جولائی 2021 22:15
بکر عطیانی -عرب نیوز
سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ ’طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں سکول، آفسز اور دوسرے اداروں کو کھلے رکھنے کا کہا گیا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)
افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی بھی حکومتی نظام کو کابل حکومت کے مقابلے میں چلانے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔
افغان طالبان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور امریکی حمایت یافتہ امن عمل پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
طالبان نے گذشتہ ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ وہ افغانستان کے 85 فیصد علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں لیکن کابل حکومت نے طالبان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔
عرب نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویوز میں طالبان ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’روزانہ کی بنیاد پر دسیوں اضلاع طالبان کے سامنے سرنڈر کر رہے ہیں اور ایسا افغان افواج کو دستیاب ہتھیاروں اور اسلحے کے باوجود ہو رہا ہے۔‘
طالبان نے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ایران، تاجکستان، ترکمانستان، چین اور پاکستان کی سرحد پر موجود علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان کے پاس اپنے زیر قبضہ علاقوں میں روز مرہ کے امور کو چلانے کے لیے وسائل موجود ہیں تو ان کا کہنا تھا: ’ہم افغانستان کے لوگ ہیں اور اپنے لوگوں کے درمیان رہ رہے ہیں۔ ہمارے پاس صرف ایک سال کا نہیں بلکہ 25 سال کا تجربہ ہے۔ ہمارے گورنر، سکیورٹی سربراہان، صوبائی سکیورٹی حکام، جج اور تمام کمشنز، جو وزارتوں کے برابر ہیں، گذشتہ 25 سال سے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے تمام لوگ تجربہ کار ہیں، بلکہ وہ کابل حکومت میں موجود افراد سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔‘
طالبان ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے قبضے میں جانے والی سرحدی کراسنگز میں لوگوں اور اشیا کی آمد و رفت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور تاجر ’معمول کے مطابق‘ اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔
سہیل شاہین کے مطابق ’اسلامی امارت کے تحت اب ایسا بغیر بدعنوانی اور آسانی سے معمول کے مطابق ہو رہا ہے اور یہ لوگ اس سے خوش ہیں۔‘
تاہم انہوں نے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں اور ممالک سے طالبان کی مالی مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عوام کو سہولیات کی فراہمی اہم ہے۔ ہم تقریباً افغانستان کے 85 فیصد علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس لیے ان علاقوں میں دفاتر کو فعال رکھنے کے لیے ہمیں مالی مدد کی ضرورت ہے۔‘
امریکی حکومت کے ساتھ سال گذشتہ سال فروری میں ہونے والے معاہدے کے تحت طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ جنگ بندی کرتے ہوئے شراکت اقتدار کے معاہدے پر بات چیت کرنا تھی لیکن اس معاملے پر کچھ زیادہ پیش رفت نہیں ہو سکی، باوجود اس کے کہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان ستمبر سے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔
جب ان سے سیز فائر کے لیے طالبان کی شرائط کا پوچھا گیا تو سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہمیں کسی سیاسی حل پر پہنچنا ہوگا، اس کے بعد جنگ بندی کی جائے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی فرد یا گروہ کو افغانستان کی زمین سے کسی اور ملک پر حملے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس میں القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان بھی شامل ہیں جو پاکستان میں کئی بڑے حملوں میں ملوث رہی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو افغانستان میں روپوش ہیں۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم افغانستان کی سرزمین کو امریکہ، اس کے اتحادیوں اور دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے اس حوالے سے القاعدہ کو ’پیغام بھیج دیا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان کی نئی حکومت پاکستان اور روایتی حریف بھارت کے درمیان تعلقات میں توازن لائے گی کیونکہ دونوں ممالک افغانستان میں اپنے اپنے مفاد رکھتے ہیں تو سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’ہم افغانستان کو کسی حریف یا حریفوں کے لیے میدان نہیں بننے دیں گے۔ جب افغانستان میں اسلامی حکومت ہوگی تو ہمیں ملک کی تعمیر نو کی ضرورت ہو گی اس لیے ہم دوسرے ممالک سے تعاون کریں گے، جو ہمارے عوام کے لیے فائدہ مند ہو گی، لیکن ہم افغانستان کو کسی کے لیے میدان نہیں بننے دیں گے۔‘