Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’طالبان ہماری بات کیوں سنیں گے جب انہیں اپنی کامیابی نظر آرہی ہے‘

تاشقند میں موجود وزیراعظم پاکستان عمران خان اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ملاقات کی ہے۔
تاشقند کانفرنس کی سائیڈ لائن پر وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر بھی مذاکرات ہوئے۔
پاکستانی وفد کی قیادت وزیراعظم عمران خان جبکہ افغانستان کے وفد کی سربراہی صدر اشرف غنی نے کی۔
پاکستانی وفد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف بھی موجود تھے۔
افغان وفد میں وزیر خارجہ حنیف اتمر اور دیگر ارکان موجود تھے۔  
اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کا تاشقند میں سینٹرل اینڈ ساؤتھ ایشیا کانفرنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے زیادہ کردار کسی نے ادا نہیں کیا۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’پاکستان نے طالبان کو بات چیت کے لیے قائل کرنے اور افغان مسئلے کے پرامن حل کی ہر ممکن کوشش کی۔‘
’افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا الزام پاکستان پر لگانا انتہائی غیر منصفانہ ہے۔‘
’ہماری سب سے پہلی ترجیح افغانستان میں استحکام ہے کیونکہ اس کا براہ راست اثر پاکستان پڑتا ہے۔‘
وزیراعظم پاکستان ان کا کہنا تھا کہ ’اسلحے کے زور پر افغان مسئلے کا کوئی حل نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امن، مفاہمت اور افغانستان کی ترقی کے لیے پاکستان تمام کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’ہم افغانستان کے تمام پڑوسیوں اور علاقائی اور بین الاقوامی فریقین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بات چیت کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی تصفیے کے لیے مل کر کام کریں۔‘
’افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان میں کشیدگی میں پاکستان کے منفی کردار ذکر کیا۔ صدر غنی مجھے بس یہ کہنے دیں کہ جو ملک افغانستان میں کشیدگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ پاکستان ہے۔‘
’پاکستان میں گذشتہ 15 برسوں کے دوران 70 ہزار جانیں ضائع ہوئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان مزید تنازع نہیں چاہتا۔ پاکستان کی معیشت ایک مشکل ترین دور سے نکل رہی ہے ۔‘
‘مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ہے۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’طالبان ہماری بات کیوں سنیں گے جب انہیں اپنی کامیابی نظر آرہی ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

’بدقسمتی سے امریکہ نے بھی افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل تلاش کرنے کی کوشش کی، جب افغانستان میں نیٹو کے ایک لاکھ 50 ہزار فوجی موجود تعینات تھے وہی وقت تھا جب طالبان سے مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے کہا جاتا۔‘
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’اب طالبان مفاہمت کی طرف کیوں آئیں گے جب امریکہ افغانستان سے انخلا کی تاریخ بھی دے چکا ہے اور اب صرف چند ہزار امریکی فوجی باقی رہ گئے ہیں۔‘
’طالبان ہماری بات کیوں سنیں گے جب انہیں اپنی کامیابی نظر آرہی ہے۔‘
واضح رہے کہ جمعرات کے روز افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے الزام تھا کہ ’پاکستانی فضائیہ نے افغان آرمی اور افغان ایئرفورس کو تنبیہہ کی ہے کہ سپین بولدک سے طالبان کو نکالنے کی کسی بھی کارروائی کے خلاف پاکستانی فضائیہ سخت ردِعمل کا اظہار کرے گی۔‘
اس کے بعد جمعے کو پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’افغانستان نے چمن کے قریب اپنے علاقے میں فضائی آپریشن کرنے کے ارادے کے بارے میں پاکستان کو آگاہ کیا تھا۔‘

شیئر: