Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے رجحان میں کمی کیوں؟

گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں قربانیوں کی تعداد ماضی سے کہیں زیادہ بڑھی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں گزشتہ تین سال میں سوا دو کروڑ سے زائد جانوروں کی قربانی دی گئی ہے جن میں کم وبیش 80 لاکھ گائے، ایک کروڑ کے قریب بکرے جبکہ 26 لاکھ بھیڑیں اور ایک لاکھ اونٹ شامل ہیں۔
سال 2020 میں 20 لاکھ گائیں، 31 لاکھ 40 ہزار بکرے، آٹھ لاکھ بھیڑیں، 60 ہزار اونٹ قربان ہوئے۔ سال 2019 میں 30 لاکھ گائے، 40 لاکھ بکروں،10 لاکھ بھیڑوں اور ایک لاکھ اونٹوں کی قربانی دی گئی، سال 2018 میں 26 لاکھ گائے 30 لاکھ بکرے، پانچ ہزار اونٹ اور تین لاکھ دنبے قربان کیے گئے۔
ملک میں قربانی کی تعداد بڑھنے کے باوجود ملک بھر میں ماضی کی نسبت کھالیں جمع کرنے کا رجحان ہر سال کم ہوتا جا رہا ہے جبکہ ماضی میں مذہبی جماعتیں، فلاحی ادارے اور تنظیموں کے علاوہ مدارس بھی قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لیے مہم چلاتے تھے۔ کھالیں جمع کرنے کے لیے پورا زور لگایا جاتا تھا اور پھر انھیں بیچ کر سرمایہ حاصل کیا جاتا تھا۔
کھالیں جمع کرنے کی یہ دوڑ اس قدر زیادہ تھی کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک دوسرے سے کھالیں چھیننے اور ایسے واقعات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف فائرنگ تک ہو جاتی تھی۔
فلاحی خدمات کے شعبے کا اہم نام ایدھی فاؤنڈیشن بھی کھالیں جمع کرنے کے لیے ملک گیر مہم چلاتی تھی لیکن ادارے کے بانی عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان سعد ایدھی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب چھ سات سال پہلے کھالیں جمع کرتے تھے تب بیل کی کھال کی قیمت چار سے پانچ ہزار ہوتی تھی اور بکرے کی کھال ہزار پندرہ سو میں نکل جاتی تھی۔ اب جب ہم نے اس کے ٹینڈر نکالا ہے تو بڑی کھال کے لیے جو سب سے زیادہ قیمت آئی ہے وہ ساڑھے چار سو روپے ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر ایک کھال ساڑھے چار سو میں بکے تو کھالیں جمع کرنے کے لیے جو وسائل خرچ ہوتے ہیں وہ بھی پورے نہیں ہوتے بلکہ الٹا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اب ہم مہم نہیں چلاتے لیکن اگر ایک علاقے سے چار پانچ گھروں سے کال آ جائے تو جا کر کھالیں اٹھا لاتے ہیں۔‘

سال 2020 میں 20 لاکھ گائیں، 31 لاکھ 40 ہزار بکرے، آٹھ لاکھ بھیڑیں، 60 ہزار اونٹ قربان ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سعد ایدھی کے مطابق ’پاکستان کا لیدر کا بڑا خریدار یورپ ہے لیکن ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے برآمد میں کمی ہوئی تو چمڑا خریدنے والوں نے بھی سرمایہ لگانے میں عدم دلچسپی دکھائی ہے۔ اسی وجہ سے کھالوں کی قیمتیں کم ہو گئی ہیں۔‘
کھالیں جمع کرنے میں شوکت خانم ہسپتال اور الخدمت فاؤنڈیشن بھی پیش پیش ہوتے تھے لیکن اب یہ ادارے کھال کے بجائے پوری قربانی کا عطیہ مانگتے ہیں۔
الخدمت فاونڈیشن کے ترجمان شعیب احمد کا کہنا ہے کہ ’کھالیں جمع کرنے کے لیے میڈیا مہم، انہیں جمع کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ، افرادی قوت اور وقت لگانے کے باوجود ضرورت مندوں کے لیے وسائل جمع ہونے کے بجائے کھالیں جمع کرنے کے لیے خرچ کردہ رقم بھی پوری نہیں ہوتی۔ پوری قوت لگا کر بھی اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو اس حوالے سے حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔‘
ایسے میں جب بڑے ادارے کھالیں جمع کرنے پر توجہ نہیں دیتے تو پھر ملک بھر میں قربان ہونے والے لاکھوں جانوروں کی کھالیں کہاں جاتی ہیں؟ جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا ضیا الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ سچ ہے کہ کھالوں کی قیمت بہت کم ہو گئی ہے اس لیے اب مدارس نے مقامی سطح پر کھالیں جمع کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ جب فلاحی اداروں اور تنظیموں کے رضا کار کھالیں اٹھانے نہیں آتے تو لوگ مقامی سطح پر مدارس کو کھالیں دے آتے ہیں۔‘

قیمتوں کی وجہ سے اصل لیدر کے استعمال کا رجحان کم ہوا ہے (فوٹو: پکسابے)

انہوں نے کہا کہ ’اگرچہ ان کھالوں سے مدارس کو ضرورت کے مطابق وسائل میسر نہیں آ رہے تاہم کوشش کیے بغیر اگر کچھ مل رہا تو کچھ بھی نہ ہونے سے بہتر ہے۔ اسی طرح اب لوگوں نے اپنے علاقوں کے غربا اور مساکین کی طرف دوبارہ توجہ دینا شروع کی ہے۔‘
پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کے سرفراز احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگرچہ اس سال قربانی کی تعداد میں اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے لیکن یورپ سمیت پوری دنیا میں لیدر مصنوعات کے استعمال میں کمی کا رجحان ہے۔ لوگ مصنوعی لیدر کا استعمال کر رہے ہیں۔ جس قیمت میں لیدر کی ایک جیکٹ ملتی ہے مصنوعی لیدر کی مختلف رنگوں کی ایسی تین جیکٹیں مل جاتی ہیں۔ لوگوں کی قوت خرید بھی کم ہو گئی ہے تو وہ لیدر نہیں خریدتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب عالمی سطح پر لیدر کے استعمال کا رجحان ہی ختم ہو رہا ہے تو ایسے میں لیدر کی برآمدات میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہو بھی رہا ہے تو قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے سرمایہ نہیں مل رہا۔‘

شیئر: